Question S. No. #10
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
علمائے کرام کی بارگاہ میں عرض ہے:
نکاح کے وقت جو جو گواہ بنتے ہیں اگر وہ فاسق معلن ہو تو کیا ان کا گواه ہونا درست ہے؟ بحوالہ جواب سے نواز دیں۔
سائل: عادل رضا، یوپی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب:
نکاح میں گواہ بننے کے لیے گواہوں کا عادل ہونا ضروری نہیں، فاسق حتیٰ کہ محدود فی القذف جس نے توبہ نہ کی اس کا بھی گواہ بننا درست ہے۔ ہاں وقت اختلاف ان کی گواہی سے نکاح کا ثبوت نہیں ہوسکتا۔
ہدایہ میں ہے:
ولا تشترط العدالة حتى ينعقد بحضرة الفاسقين عندنا [المَرْغِيناني، الهداية في شرح بداية المبتدي، ١٨٥/١]
ترجمہ: نکاح میں عادل ہونا شرط نہیں حتی کہ ہمارے نزدیک دو فاسقوں کی موجودگی میں بھی نکاح منعقد ہوجائے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ويصح بشهادة الفاسقين والأعميين، كذا في فتاوى قاضي خان وكذا بشهادة المحدودين في القذف وإن لم يتوبا. [مجموعة من المؤلفين، الفتاوى الهندية، ٢٦٧/١]
ترجمہ: دو فاسقوں، اندھوں کی گواہی سے بھی نکاح صحیح ہے، ایسا ہی فتاوی قاضی خان میں ہے۔ اور اسی طرح ان کی گواہی سے بھی نکاح صحیح ہے جن پر تہمت زنا کی حد لگائی ہوئی ہو اگرچہ انھوں نے توبہ نہ کی ہو۔
بہار شریعت میں ہے:
نکاح کے گواہ فاسق ہوں یا اندھے یا اُن پر تہمت کی حد لگائی گئی ہو تو ان کی گواہی سے نکاح منعقد ہو جائے گا، مگر عاقدین میں سے اگر کوئی انکار کر بیٹھے تو ان کی شہادت سے نکاح ثابت نہ ہوگا۔
(بہار شریعت، ج:۲، ص: ۱۳، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، دعوت اسلامی)
واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ:
کمال احمد العطاری المصباحی
۱۰ شوال المکرم ۱۴۴۲
ماشاءاللہ بہت خوب عمدہ کاوشیں
جواب دیںحذف کریں