Question S. No. #47
(ماخوذ از فتاویٰ شارح بخاری ج:۱، ص:١١٣، کتاب العقائد، عقائد متعلقہ ذات و صفات الہیہ)
سوال : بکر کہتا ہے کہ خدا ہر جگہ موجود ہے مگر مراد اس سے میری یہ ہے کہ خدا کی طاقت ہر جگہ موجود ہے اور دلیل پیش کرتا ہے ”یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ“ کہ جس طرح اس آیت کے ٹکڑے میں ”ید“ سے مراد طاقت وقدرت ہے، اسی طرح ہم اس جملہ سے طاقت و قدرت مراد لیتے ہیں۔
خالد کہتا ہے کہ خدا مکان سے منزہ ہے، اس کی طرف مکان کی نسبت نہیں کر سکتے ورنہ احتیاج الى المكان (جگہ کا محتاج ہونا) لازم آئے گا جو واجب الوجود کے منافی ہے۔
طرفین میں سے کون حق پر ہے تحریر فرمائیں۔
سائل:
محمد اختر حسین نوری نیپالی،
۱۲۹ ربیع الاول ۱۳۹۹
الجواب : یہ جملہ کہا کہ خداہر جگہ موجود ہے، سخت حرام اور اپنے ظاہر معنی کے لحاظ سے کفر ہے۔ حدیقه ندیه میں ایسے قائل كو کافر کہا ہے، اگرچہ مذہب متكلمين مختار للفتوی پر کافر نہیں کہا جائے گا مگر احتیاطاً توبه و تجديد ایمان و نکاح کا حكم دیا جائے گا۔ یہ تاويل کہ مراد یہ ہے کہ خدا کی قوت ہر جگہ موجود ہے، تاویل بعید ہے. ”یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ“ پر قیاس ، قیاس مع الفارق ہے، عربی میں بھی اور اردو میں بھی۔ ید ہاتھ بمعنی قوت مستعمل ہے مگر ذات کو موجود بول کر قوت مراد لینا مستعمل نہیں۔
علاوہ ازیں ”یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ“ متشابہات سے ہے۔ متشابہات کی پیروی بنص قرآن حرام فرمایا گیا: ”فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ لهذا علماء نے تصریح فرمائی کہ اگرچہ نصوص میں ”يد، وجه، قدم“ وارد ہیں مگر سوائے مواقع ورود اور كہیں استعمال کرنا ممنوع ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بھی حرام ہے کہ اللہ کے لیے ہاتھ ہے، اگر چہ ہاتھ سے مراد قوت ہو۔ والله تعالی اعلم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جواب دیںحذف کریںاگر کوئی جماعت کے ساتھ نماز پڑھے اور کپڑوں کو فولڑ رکھے تو کیا اس کو نماز دوبارہ پڑھنی ہو گی؟