Headlines
Loading...
قربانی کی نیت سے رکھے ہوئے بکرے کو عقیقے میں ذبح کرنا کیسا؟

قربانی کی نیت سے رکھے ہوئے بکرے کو عقیقے میں ذبح کرنا کیسا؟

Question S. No. #45

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عرض ہے کہ اگر کسی نے بکرا اس نیت سے رکھا تھا کہ قربانی کریں گے لیکن بعد میں ذہن بنا کہ قربانی کے لیے حصہ ملا لیں گے اور اس بکرے کا عقیقہ کر لیں گے۔ تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ براۓ کرم شرعی رہنمائی فرما دیجیے۔

المستفتی: غلام شبیر عطاری، پاکستان

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

صورت مسئولہ میں اگر بکرا پہلے سے ملکیت میں تھا تو اسے عقیقے میں ذبح کرنا اور اس کے بدلے میں حصہ ملانا جائز و درست ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔

اور اگر بکرا قربانی کی نیت سے خرید کر رکھا تھا، اور خریدنے والا مالک نصاب نہیں ہے تو اسی متعین بکرے کی قربانی واجب ہے، اس کے بدلے حصہ ملانا یا اسے دوسرے بکرے سے بدلنا جائز نہیں۔ ہاں اگر مالک نصاب ہے تو اس کے بدلے میں حصہ ملانا یا دوسرے بکرے سے بدلنا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ حصے یا دوسرے بکرے کی قیمت پہلے والے بکرے سے زیادہ ہو۔ برابر قیمت والے یا کم قیمت والے حصے یا بکرے سے بدلنا جائز نہیں، البتہ دونوں صورتوں میں قربانی کردی تو ہوجائے گی لیکن اگر کم قیمت والے سے بدلا تھا تو قیمت کے اعتبار سے پہلے والے کے مقابل جو کمی رہ گئی ہو اسے صدقہ کرنا واجب ہے۔

مثلًا پہلا بکرا 10000 روپیے کا تھا، اور دوسرے بکرے یا حصے کی قیمت 8000 روپیے تھی تو 2000 ہزار روپیے صدقہ کرنا واجب ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ولو ملك إنسان شاة فنوى أن يضحي بها، أو اشترى شاة ولم ينو الأضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك أن يضحي بها لا تجب عليه سواء كان غنيا أو فقيرا. [مجموعة من المؤلفين، الفتاوى الهندية، ٢٩١/٥]

رد المحتار میں ہے:

فلو كانت في ملكه فنوى أن يضحي بها أو اشتراها ولم ينو الأضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك لا يجب، لأن النية لم تقارن الشراء فلا تعتبر. بدائع. [ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٣٢١/٦]

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ جد الممتار میں فرماتے ہیں:

وقال في الهداية والتبيين: (إنها تعينت للأضحية حتى وجب أن يضحي بعينها في أيام النحر ويكره أن يبدل بها غيرها.) اھ.

قال في العناية: (بعينها في أيام النحر إذا كان المضحي فقيرا ويكره أن يبدل إذا كان غنيا) اھ۔ ومطلق الكراهة التحريم.

بل زاد سعدي أفندي بعد قوله: ”إذا كان غنيا“ (ولكن يجوز استبدالها بخير منها عند أبي حنيفة و محمد رحمهما الله تعالى. (جد الممتار على رد المحتار، ج:٦، ص: ٦٦٠، مكتبة المدينة، الدعوة الإسلامية)

اسی میں بحوالہ عنایہ و تبیین ہے:

لو باع أضحيته واشتریٰ بمثنها غیرھا، فإن كان الثاني أنقص من الأول تصدق بما فضل) اھ. ظاهر الصيغة الوجوب. (جد الممتار على رد المحتار، ج:٦، ص: ٦٦١، مكتبة المدينة، الدعوة الإسلامية)

اس میں مزید ہے:

وقال في العناية: (لو اشترى أضحية ثم باعها واشترى مثلها لم يكن به بأس) اھ. فافهم لو كانت أدون منها كان به بأس ولا بأس في المكروه تنزيها فيكره تحريما، بل قال عليه سعدي أفندي: (أقول فيه بحث) اھ. أي: في المثل أيضا بأس بل يشترط للجواز الخيرة كما قدمنا عن عنه. (جد الممتار على رد المحتار، ج:٦، ص: ٦٦١، مكتبة المدينة، الدعوة الإسلامية)

فتاویٰ رضویہ میں ہے:

اگر مخصوص قربانی کے لیے خریدیں اور اب اس وجہ سے کہ یہ زائد قیمت کی ہیں، انھیں نہ کرنا چاہو اور ان کے بدلے اپنے پاس سے یا کوئی اور لے کر ان سے کم قیمت کی قربانی کرو تو ہوجائے گی اور وہ پہلی گائیں بیچو یا رکھو اختیار ہے۔ مگر ایسا کرنا جائز نہ ہوا کہ جب ان پر مخصوص قربانی کی نیت ہوئی، تو ان کو اگر بدلتے تو ان سے بہتر سے بدلتے، نہ کہ کمتر سے، جب کہ کمتر سے بدلا تو جتنی زیادتی رہی اتنے دام تصدق کرنے کا حکم ہے مثلاً دس روپیے کی گائے قربانی کو خریدی تھی، پھر اس کے بدلے سات روپے کی قربانی کردی تو تین روہے تصدق کیے جائیں۔ (فتاوی رضویہ ج:۸، ص:۴۶۲، رضا اکیڈمی ممبئی)

فتاوی امجدیہ میں ہے:

پھر اگر غنی (قربانی کی نیت سے جانور خریدنے والے) نے پہلے جانور کی قربانی کرلی تو اگرچہ اس کی قیمت دوسرے سے کم ہو ہو وہ بالکل کافی ہوگئی، اس قربانی کے سوا اس پر کوئی چیز لازم نہیں اور اگر دوسرے کی قربانی کی ہے اور یہ پہلے جانور سے قیمت میں کم ہے تو جتنی کمی ہے اس کو صدقہ کرے ہاں اگر اس کو بھی قربان کر دیا تو اب کسی چیز کا کا تصدق اس پر لازم نہیں۔

رد المحتار میں ہے:

لو ضحى بالأولى أجزأه ولا يلزمه شيء ولو قيمتها أقل، وإن ضحى بالثانية وقيمتها أقل تصدق بالزائد. قال في البدائع إلا إذا ضحى بالأولى أيضا فتسقط الصدقة لأنه أدى الأصل في وقته فيسقط الخلف. [ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٣٢٦/٦] (فتاویٰ امجدیہ ج:۳، ص:۳۳۲)

فتاویٰ فیض الرسول میں ہے:

قربانی کے لیے خصی خریدنے والا اگر مالک نصاب نہیں تھا تو اس پر خصی کی قربانی واجب تھی اسے بیچ کر تیس روپیہ گائے کی قربانی کے دو حصے میں صرف کرنا اور تیس روپیہ بچا کر اپنی ضروریات میں خرچ کرنا جائز نہیں۔ اور اگر خصی خریدنے والا مالک نصاب تھا تو اس تیس روپیے کے صدقے کا حکم ہے۔ (فتاویٰ فیض الرسول، ج:۲، ص: ۴۶۸) واللہ تعالیٰ اعلم
كتبه:
کمال احمد العطاری المصباحی
۲۰ شوال المکرم ۱۴۴۲ھ
الجواب صحیح: مفتی وسیم اکرم الرضوی المصباحی

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.