پیچنے والے اور خریدار کے درمیان مقدار ثمن میں اختلاف ہو جائے تو کیا حکم ہے؟
Question S. No. #37
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید اور بکر دونوں دوست تھے ۔ زید کی کتابوں وغیرہ کی دکان ہے ۔ دو تین سال کے بعد ان کی دوستی ختم ہو گئی ۔
اب زید بکر پر یہ دعوی کرتا ہے کہ تم پر 15000 باقی ہیں ، بکر کہتا ہے : مجھ پر 15000نہیں بلکہ 5 یا 6 ہزار ہوگا پھر بھی میں آدھی قیمت 7500 دینے کو تیار ہوں ۔ زید 15ہزار ہی کا دعویدار ہے جبکہ بکر کہتا ہے کہ اس کا ثبوت دو ۔لیکن زید کے پاس کوئی ثبوت نہیں اور بکر کو بھی معلوم نہیں کہ کون کون سا سامان زید نے دیا ہے ۔ بکر کے گھر پر اس طرح کے سامان ہیں اور کافی پرانے ہیں لیکن یہ سامان وہی ہیں جو زید سے ادھار لیے تھے اس کا علم نہیں کیونکہ کئی سامان بکر نے نقد بھی خریدے تھے ۔ایسی صورت میں میں شرع کا کیا حکم ہوگا؟
المستفتی: محمد حسین عطاری ممبرا، ممبئی مہاراشٹر
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب بعون الملک الوہاب:
صورت مسئولہ میں جبکہ مبیع (بیچا گیا سامان ) کا پتہ نہیں ، اگر مبیع ہو بھی تو ایسی حالت میں ہے کہ واپس نہ ہوسکے گی تو یہ تحالف [1] کی صورت نہیں ہے ۔لہذا بائع (بیچنے والا) زید سے گواہ لیے جائیں گے اگر اس نے دلیل شرعی سے ثابت کردیا تو خریدار بکر کو 15ہزار دینے ہوں گے ورنہ بکر سے قسم لی جائے گی اگر اس نے قسم کھالی تو اس کی بات مانی جائے گی ،قسم سے انکار کیا تو زید کے حق میں فیصلہ ہوگا۔
در مختار میں ہے:
ولا) تحالف إذا اختلفا (بعد هلاك المبيع) أو خروجه عن ملكه أو تعيبه بما لا يرد به (وحلف المشتري) [علاء الدين الحصكفي ,الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار ,ص: 516]
مبیع ہلاک ہوجائے یا خریدار کی ملکیت سے نکل جائے یا اس میں ایسا عیب پیدا ہو جاۓ کہ وہ واپس نہ ہوسکے ان سب صورتوں کے پاے جانے کے بعد مقدار ثمن میں بائع اور خریدار کے درمیان اختلاف ہو تو دونوں سے قسم نہیں لی جاۓ گی، صرف خریدار سے لی جائے گی جب کہ ثمن [2] خریدار پر دین ہو ۔
مذکورہ حکم اس وقت ہے جبکہ زید نے قاضی کے پاس دعوی کیا ہو ورنہ اس کا دعوی کرنا صحیح نہیں اور مدعی علیہ بکر پر اس کا جواب دینا واجب نہیں۔
فتاوى هندية میں بحوالۂ کافی و نہایہ منقول ہے:
فِي النِّهَايَةِ وَمِنْهَا مَجْلِسُ الْقَضَاءِ فَالدَّعْوَى فِي غَيْرِ مَجْلِسِ الْقَضَاءِ لَا تَصِحُّ حَتَّى لَا يُسْتَحَقُّ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ جَوَابُهُ هكذا في الكافي. [مجموعة من المؤلفين ,الفتاوى الهندية ,4/2]
صحت دعوی کی ایک شرط مجلس قضا ہے ، جو دعوی مجلس قضا میں نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے اور مدعی علیہ پر اس کا جواب دینا واجب نہیں۔
یہاں ہندوستان میں قاضی نہیں ؛ تو جو اس علاقے کا سب سے بڑا عالم دین مرجع فتاویٰ ہو وہی قاضی کے قا ئم مقام ہے۔
الحديقة الندية میں فتاوی عتابیہ سے منقول ہے:
إذا خلا الزمان من سلطان ذي كفاية فالأمور مؤكلة إلى العلماء ويلزمه الأمة الرجوع إليهم بإتباع علمائه فإن كثروا فالمتبع أعلمهم. [الحديقة الندية: الجزء الثاني ، ص :153 مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت]
والله تعالیٰ أعلم
كتبه:
غلام رضا مدنی
استاذ جامعۃ المدینہ فیضان عطار، ناگ پور، مہاراشٹر
الجواب صحیح:
فقیہ النفس مناظر اہل سنت حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمٰن مضطر رضوی پرنوی دامت برکاتھم العالیہ
0 آپ کے تاثرات/ سوالات: