کیا فوت شدہ بزرگوں کی طرف سے قربانی کرنے سے وجوب ساقط ہوجائے گا؟
Question S. No. #60
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ سے متعلق کہ ایک ایسا شخص ہے جس پر قربانی واجب ہونے کے سارے شرائط پائے جاتے ہیں لیکن قربانی کبھی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کرتا ہے تو کسی سال غوث پاک کے نام سے کرتا ہے، اپنے نام کی نہیں کرتا۔
اس شخص کا ایسا کرنا کہاں تک درست ہے؟ کیا اس کے ذمے کا وجوب اس طرح سے قربانی کرنے سے ساقط ہو جائے گا؟ یا مذکورہ شخص گناہ گار ہوگا؟ بینوا و توجروا
المستفتی: ساجد خان بھوانی پٹنہ، اڈیشہ، ھند
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب:
جس شخص کے اوپر قربانی واجب ہے اسے اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔
پھر بھی اگر وہ فوت شدہ بزرگوں کی طرف سے اپنے ہی مال سے قربانی کرتا ہے تو بھی اس کی قربانی درست ہے، اس کے ذریعے بھی اس کا وجوب ساقط ہو جائے گا۔ کیوں کہ اصل جانور اور گوشت کا یہی مالک ہے، یہ ان بزرگوں کو ایصال ثواب کہلائے گا۔
رد المحتار میں ہے:
(قوله وعن ميت) أي لو ضحى عن ميت وارثه بأمره ألزمه بالتصدق بها وعدم الأكل منها، وإن تبرع بها عنه له الأكل لأنه يقع على ملك الذابح والثواب للميت، ولهذا لو كان على الذابح واحدة سقطت عنه أضحيته كما في الأجناس. قال الشرنبلالي: لكن في سقوط الأضحية عنه تأمل اهـ. أقول: صرح في فتح القدير في الحج عن الغير بلا أمر أنه يقع عن الفاعل فيسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب فراجعه [ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٣٣٥/٦]
ترجمہ: اگر میت کے حکم سے اس کی طرف سے اس کے وارث نے قربانی کی تو وارث پر لازم ہے کہ اسے صدقہ کردے اور اس میں سے نہ کھائے۔ اور اگر میت سے طرف سے تبرع (نفلی قربانی) کیا تو کھا سکتا ہے، کیوں یہ قربانی وارث کی ملک پر ہے اور میت کو ثواب بھی ملے گا۔ اسی لیے اگر ذابح پر قربانی واجب ہو تو قربانی ساقط ہوجائے گی۔ ایسا ہی اجناس میں ہے۔
علامہ شرنبلالی فرماتے ہیں: ”لیکن اس پر سے قربانی ساقط ہونے میں تامل ہے۔ “
علامہ شامی فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ فتح القدیر میں علامہ ابن ہمام نے یہ صراحت فرمائی ہے کہ اگر کسی نے دوسرے کی طرف سے اس کے حکم کے بغیر حج کیا تو وہ کرنے والے کی طرف سے ہوگا اور اس سے فرض بھی ساقط ہوجائے گا اور جس کی طرف سے کیا تھا اسے ثواب ملے گا۔
نیز فتاویٰ قاضی خان میں ہے:
رجل اشترى أضحية ثم مات، إن كان الميت أوجبها على نفسه بلسانه يجبر الورثة على أن يضحوا عنه، ولو ضحى عن ميت من مال نفسه بغير أمر المیت، جاز. وله أن يتناول منه ولا يلزمه أن يتصدق به؛ لأنها لم تصر ملكا للميت بل الذبح حصل على ملکه. ولهذا لو كان على الذابح أضحية سقطت عنه
وإن ضحى عن ميت من مال الميت بأمر الميت يلزمه التصدّق بلحمه، ولا يتناول منه؛ لأن الأضحية تقع عن الميت.
( فتاوى قاضي خان فصل: فيما يجوز في الضحاياو مالا يجوز، من كتاب الاضحية ج:3،ص:239)
والله تعالى أعلم
كتبه:
محمد وسيم أكرم الرضوي
مدرس جامعة المدينه نيبال
٣،ذو الحجة الحرام،١٤٤١
25،جولائی، 2020
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
جواب دیںحذف کریںعرضِ خدمت یہ کرنی تھی کے جواب میں جو عربی عبارت دی ہوئی ہوتی ہے۔ اگر اسکا بھی اردو میں ترجمہ ہو جایا کرے تو بہت اچھا ہے۔تھوڑا وقت ضرور درکار ہے لیکن فائدہ بھی بہت ہے