Question S. No. #61
سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلہ میں کہ قربانی کرنا بکرا خصی یعنی بدھیا جائز ہے یا نہیں؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ قربانی خصی یعنی بدھیا جانور کی جائز نہیں ہے۔ پس از روئے شرع شریف جو حكم اس بارے میں ہو بیان فرمائيے اور اجر اس کا خداے تعالی سے حاصل کیجیے.
سائل:
مولوی خلیل الرحمن صاحب، بنارس محلہ کچی باغ
۴ ربیع الاول ۱۳۴۶ھ
الجواب : خصی کی قربانی غیر خصى سے افضل ہے۔
تبيین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:
ويضحي بالجماء والخصي، وعن أبي حنيفة هو أولى؛ لأن لحمه أطيب، [الزيلعي ، فخر الدين، تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي، ٥/٦]
یعنی بے سینگوں والے اور خصی کی قربانی جائز ہے۔ اور امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خصی بہتر ہے اس لیے کہ اس کا گوشت زیادہ اچھا ہوتا ہے۔
غرر الاحكام میں ہے:
و صح الجماء والخصي. [منلا خسرو، درر الحكام شرح غرر الأحكام، ٢٦٩/١]
یعنی بے سینگوں والے اور خصی کی قربانی صحیح ہے۔
شرنبلالیہ میں بدائع سے ہے:
وأفضل الشاء أن يكون كبشا املح اقرن موجوءا. [الكاساني، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ٨٠/٥]
یعنی افضل قربانی یہ ہے کہ مینڈھا، چتکبرا، سینگوں والا اور خصی ہو۔
مجمع الانہر شرح ملتقي الابحر میں ہے:
و يجوز الخصي، عن الإمام أن الخصي أولى لأن لحمه ألّذ و أطيب. [عبد الرحمن شيخي زاده، مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، ٥١٩/٢]
ترجمہ: خصی کی قربانی جائز ہے۔ امام اعظم سے مروی ہے کہ قصی کی قربانی زیادہ بہتر ہے کیوں کہ اس کا گوشت زیادہ لذیز اور اچھا ہوتا ہے۔ والله تعالیٰ اعلم
از: صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی علیہ الرحمۃ والرضوان
(ماخوذ فتاوی امجدیہ کتاب الاضحیہ جلد ۳، ص: ۳۰۴)
0 آپ کے تاثرات/ سوالات: