مدرسے کی تعمیر اور مدرسین کی تنخواہ میں زکوٰۃ کا پیسہ لگانا کیسا؟
Fatwa No. #201
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایسا مدرسہ جس میں اخراجات صرف تعمیرِ عمارت و تنخواہِ مدرسین ہو صدقہ فطر اور زکوۃ کی رقم لگانا جائز ہے یا نہیں؟
المستفتی:
عبد الغفار صاحب امجدی
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب:
صدقہ فطر و زکوٰۃ نہ تعمیر مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے نہ تنخواہ مدرسین میں۔ یہ صرف فقراء اور مساکین کا اور ان لوگوں کا حق ہے جن کو قرآن پاک میں ذکر فرمایا گیا۔
مگر اگر اس قسم کی مدوں کو نکال دیا جائے تو مدرسے کی آمدنی اس زمانے میں اتنی کم رہ جائے گی جس سے اس کا چلنا دشوار ہو جائے گا اور تحصیل علم کا دروازہ بند ہوتا نظر آئے گا۔ لہذا ان چیزوں میں زکوۃ اور صدقہ فطر بطور حیلہ کے صرف کیا جائے کہ اس قسم کے امور خیر کے لیے حیلہ کرنے میں کسی قسم کی کراہت یا قباحت نہیں۔
اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ یہ رقمیں کسی فقیر یا مسکین کو بطور تملیک دے دی جائیں، وہ اپنی طرف سے مدرسے کو دے دے تو اب اس رقم کا تنخواہِ مدرسین و عمارت میں صرف کرنا جائز ہوجائے گا۔ اور زکاۃ و صدقہ فطر ادا ہو جائے گا چنانچہ عموماً مدارس میں ایسا ہی کیا جاتا ہے۔
کتبہ:
صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی علیہ الرحمہ
[فتاویٰ امجدیہ، ج: 1، ص: 376]
0 آپ کے تاثرات/ سوالات: