مسجد میں چندہ مانگنا یا چندہ کا اعلان کرانا کیسا ہے؟
Fatwa No. #223
سوال:
بروز جمعہ مسجد کے ممبر خطابت سے نامزد غرباء، فقراء اور معذورین و شادی بیاہ وغیرہ کے لیے چندہ کا اعلان کرانا نیز خودنماز پنج گانہ کے سلام پھیرنے کے بعد نابینا، لنگڑے، اپاہج وغیرہ کا چندہ کے لیے مسجد میں سوال کرنا کیسا ہے؟
المستفتی:
رضوی کتاب گھر، جھارکھنڈ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب:
حاجت مندوں کے لیے چندہ کا اعلان کرنا جائز ہے جب کہ چندہ مسجد میں نہ دیا جائے بلکہ مسجد کے باہر گیٹ کے پاس دیا جائے یا اپنے گھر بلا کر دیا جائے۔ مسجد میں دینے سے شور و غل ہوگا، نمازیوں کی نماز میں خلل ہوگا، لوگوں کی گردنیں بھی پھلانگنی پڑ سکتی ہیں اور یہ امور نا جائز ہیں۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے:
دوسرے محتاجوں کے لیے امداد کو کہنا یا کسی دینی کام کے لیے چندہ کرنا جس میں شور و غل نہ ہو، نہ کسی کا گردن پھلانگنا پڑے، نہ کسی کی نماز میں خلل واقع ہو تو یہ بلاشبہ جائز ہے بلکہ سنت سے ثابت ہے۔ (فتاوی رضویہ مترجم، ج: 23 ص: 403، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
اور نابینا لنگڑے، اپاہج وغیرہ کا اپنے لیے مسجد میں سوال کرنا نا جائز و گناہ ہے۔
پھر اسی میں ہے:
اگر یہ باتیں نہ ہوں جب بھی اپنے لیے مسجد میں
بھیک مانگنا منع ہے۔ (مرجع سابق) واللہ تعالی اعلم
کتبہ:
محمد صابر حسین فیضی
الجواب صحیح:
سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین برکاتی مصباحی
مفتی محمد ابرار احمد امجدی برکاتی
[فتاویٰ مرکز تربیت افتا، ج: 1، ص: 258، 259]
0 آپ کے تاثرات/ سوالات: