قربانی کے جانور میں عیب پہچاننے کا ضابطہ - از مفتی نظام الدین مصباحی برکاتی
Fatwa No. #229
سوال:
قربانی کے جانور کو عیب و نقص سے پاک ہونا چاہیے، اس سلسلے میں عرض ہے کہ عیب کس قدر ہو تو قربانی صحیح نہ ہوگی؟ مکمل بے عیب جانور تو کم دست یاب ہوتے ہیں، اس بارے میں احادیث نبویہ سے کیا ر ہنمائی ملتی ہے اور کتب فقہ میں کیا اس تعلق سے کوئی ضابطہ ہے جس کے پیش نظر جانوروں کے تعلق سے فیصلہ کرنا آسان ہو؟
المستفتی:
طلبہ جامعہ اشرفیہ، مبارک پور
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب:
بہتر تو یہی ہے کہ قربانی کا جانور ہر طرح کے عیب و نقص سے پاک، فربہ و خوب صورت ہو، تاہم کچھ معمولی سا عیب ہو تو وہ معاف ہے، شریعت کچھ حد تک اسے گوارا کر لیتی ہے لیکن عیب اگر زیادہ ہو تو شریعت اسے گوارا نہیں کرتی اور ایسے جانوروں کی قربانی صحیح نہیں ہوتی۔ اس لیے قابلِ توجہ یہ ہے کہ وہ کون کون سے عیوب یا نقائص ہیں جو شریعت کی نگاہ میں ناقابل معافی، یا قابل عفو ہیں۔
احادیث نبویہ میں کچھ ایسے عیب دار جانوروں کا ذکر ہے جن کی قربانی صحیح نہیں ہوتی، فقہا نے بھی اپنی لسٹ میں ان جانوروں کو شمار کیا ہے اور بعض فقہا نے کہیں کہیں قربانی صحیح نہ ہونے کی علت بھی بیان فرمائی ہے۔ ہم یہاں ان سب کو سامنے رکھ کر تین ضابطے بیان کرتے ہیں جن سے اس نوع کے مسائل بخوبی اجاگر ہوجائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
پہلا ضابطہ
قربانی کے جانوروں میں دو طرح کے اعضا پائے جاتے ہیں:
- کچھ اعضاوہ ہیں جو اعضائے مقصودہ سے ہیں۔
- اور کچھ اعضاوہ ہیں جو غیر مقصودہ سے ہیں۔
یوں کچھ نہ کچھ فائدہ ان اعضا کا بھی ہے، مگر شرعا وہ مقصود نہیں ہیں، جیسے سینگ، خصیے ، آلہ تناسل، مثانہ وغیرہ۔ یہ اعضائے مقصوده سے نہیں۔
سینگ تو زینت اور آرائش وغیرہ کے لیے ہے، لہذا سینگ اگر اوپر سے ٹوٹ جائے تو یہ عیب نہیں ہے، گو دیکھنے میں یہ ہلکا پھلکا سا عیب محسوس ہوتا ہے مگر یہ گوارا ہے۔ کیوں کہ جو عیب نظر آرہا ہے وہ عضو غیر مقصود میں ہے، لہٰذا اس کی قربانی صحیح ہوگی۔ لیکن اگر سینگ سر کے اندر جڑ سے ٹوٹی ہو، گودے سے نکل آئی ہو تو یہ عیب ہے، اس لیے نہیں کہ سینگ نکل آئی بلکہ اس لیے کہ سر جانور کے اعضائے مقصودہ میں سے ہے اور اس کے اندر گہرا زخم پیدا ہوگیا اور وہ بھی ایک نہیں دو، دو گہرے زخم پیدا ہو گئے۔ اگر دونوں سینگیں ٹوٹی ہوں، سر کے اندر سے، تو عضو مقصود میں دو دو گہرے زخم پیدا ہو جانے کی وجہ سے اس کی قربانی ناجائز اور نادرست ہے۔
یوں ہی جانور کا آلہ تناسل اور دونوں خصیے بھی اعضائے غیر مقصودہ سے ہیں، یہی حال مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی کا بھی ہے۔
جانوروں سے مقصود دو چیزیں ہوتی ہیں: دودھ اور گوشت، ان کے مقاصد عامہ میں یہی دو چیزیں ہیں، کچھ جانور ایسے ہیں جن سے سواری بھی مقصود ہوتی ہے جیسے اونٹ، اس سے سواری بھی مقصود ہے، گوشت بھی مقصود ہے اور دودھ بھی مقصود ہے۔ اور چھوٹے جانوروں سے دودھ اور گوشت مقصود ہے، ان سے سواری نہیں مقصود ہے۔
اس تشریح کے پیش نظر آپ اعضا کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سا عضو اعضاے مقصودہ سے ہے اور کون سا غیر مقصودہ ہے۔
سینگ: اس سے نہ گوشت ملتا ہے، نہ دودھ ملتا ہے، نہ اس پر سواری ہو سکتی ہے، لہٰذا عضو غیر مقصود ہے اور اس سے براہ راست یا بالواسطہ کوئی تعاون بھی نہیں ملتا ہے اس لیے بھی یہ عضو غیر مقصود ہے۔ دونوں خصیے اور نر جانور کا آلہ تناسل اور مثانہ یہ بھی ان تینوں میں سے کسی کام کے نہیں، بلکہ ان کو کھانا مکروہ تحریمی و نا جائز ہے، اس لیے یہ عضو مقصود سے نہیں ہیں، دودھ ان سے حاصل نہیں ہو سکتا، سواری ان پر ہو نہیں سکتی اور کھانا ان کا جائز نہیں۔ تو واضح ہو گیا کہ یہ تینوں اعضا بھی اعضاے غیر مقصودہ سے ہیں۔ لہذا اگر نر جانور کے دونوں خصیے نکال دیے جائیں تو یہ عیب نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس کا عضو تناسل بھی کاٹ دیا گیا ہو تو یہ عیب نہیں ہے، ایک عضو ہی پورا فوت ہو گیا، بلکہ دو اعضا فوت ہو گئے بلکہ ایک ساتھ تین تین اعضا فوت ہو رہے ہیں مگر شریعت اسے معمولی سا بھی عیب نہیں قرار دیتی ہے کیوں کہ یہ اعضاے مقصودہ سے نہیں ہیں، نہ ان کو کھا سکتے ہو، نہ پی سکتے ہو نہ ان پر سواری کر سکتے ہو۔ اس لیے ان کے نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ایسے جانور کی قربانی صحیح و درست ہے اس کے برخلاف جو اعضا مقصود ہیں کہ وہ براہ راست کھائے یا پیے جاتے ہیں یا بالواسطہ کھانے پینے یا سواری کے کام آتے ہیں تو ایسے سارے اعضا، اعضاے مقصودہ ہیں۔
دوسرا ضابطہ:
اعضاے مقصودہ میں سے اگر کسی عضو منفعت بیماری یا عیب کی وجہ سے بالکل فوت ہوجائے، ختم ہو جائے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی۔ مثلاً جانور کا ایک پاؤں کٹ کر الگ ہو جائے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی کہ یہ سواری کے لیے براہ راست مقصود ہے اور چرنے کے لیے، پانی پینے کے لیے بواسطہ مقصود ہے تو یہ کھانے میں بھی، پینے میں بھی، سواری میں بھی براہ راست یا بالواسطہ مقصود ہے، اس کی منفعت بالکل فوت ہو گئی، لہٰذا ایسے جانور کی قربانی نہیں ہوگی یا فرض کیجیے کہ جانور کے پاؤں میں کوئی ایسی بیماری پیدا ہوگئی کہ اس پاؤں سے وہ چلنے کے لائق نہ رہا یعنی لنگڑا ہو گیا، تین پاؤں سے چلتا ہے اور چوتھا پاؤں زمین پر نہیں رکھتا ہے تو اس پاؤں کی منفعت جو مقصود تھی فوت ہوگئی، لہذا اس کی بھی قربانی نہیں ہوگی، کہ عضو مقصود کی منفعت مقصودہ فوت ہو گئی۔ ایک آنکھ پھوٹ جائے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی کیوں کہ اس آنکھ کی جو منفعت مقصودہ ہے وہ فوت ہو گئی۔ آنکھ سے اگرچہ براہ راست دودھ نہیں ملتا، کھانا نہیں ملتا، اس پر سواری نہیں ہو سکتی مگر بالواسطہ یہ آنکھ تینوں کے لیے ممد و معاون ہے۔ جانور اندھا ہو جائے یا پاگل ہو جائے تو اس کی بھی قربانی صحیح نہیں ہے ، پاگل ہو گیا تو اس کے دماغ کی منفعت مقصودہ فوت ہوگئی۔ بہرا ہو گیا تو کانوں کی منفعت مقصودہ فوت ہو گئی، اس طرح سے شریعت نے جتنے عیوب گنائے ہیں ان پر ایک ایک کر کے آپ نظر ڈالتے جائیے تو آپ پر ایک ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی جائے گی کہ اس وجہ سے اس کی قربانی نا جائز ہے اور اس وجہ سے جائز ہے۔
اب اس ضابطہ کی روشنی میں بہار شریعت میں اس نوع کے مسائل پڑھ لیجیے۔ آپ کو سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ کہ اعضائے مقصودہ کے منافع مقصودہ فوت ہو رہے ہیں لہٰذا قربانی نہیں ہوگی۔
تیسرا ضابطه:
کچھ اعضا ایسے ہیں جن میں ایک تہائی سے زیادہ فوت ہو جائے تب بھی شریعت ایسے جانور کی قربانی کو صحیح نہیں مانتی ہے مثلاً بکری ہے، بھیڑ ہے ان کے دو تھن ہوتے ہیں، ایک تھن کسی بھی وجہ سے خشک ہو گیا، اس سے دودھ نہیں آتا یا پہلے ہی سے پیدائشی طور پر خشک ہے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی کہ اس عضو کی جو منفعت مقصودہ ہے وہ ایک تہائی سے زیادہ فوت ہو گئی لہذا اس کی قربانی نہیں ہوگی، یہاں دودھ دونوں تھنوں سے مقصود ہوتا ہے تو ان میں سے ایک کے خشک ہونے سے عیب ایک تہائی سے زیادہ ہو گیا تو وہ عیب کثیر ہے لہٰذا قربانی نہیں ہوگی۔
بڑے جانور جیسے اونٹنی اور بھینس میں چار لر ہوتی ہیں، ان میں ایک لر اگر خشک ہو جائے تو ان کی قربانی صحیح ہوگی، کیوں کہ چار میں ایک تھن کے خشک ہونے سے ایک تہائی سے کم ہی خشک ہوا ہے۔ اور اگر دو لر خشک ہو جائیں یا دو لر فوت ہو جائیں تو اس کی قربانی نہیں ہوگی کیوں کہ دو لر خشک ہونے سے ایک تہائی سے زیادہ منفعت فوت ہو گئی۔
میرے عزیز طلبہ ! اگر یہ بات آپ نے سمجھ لی ہے تو آپ اطمینان رکھیں کہ قربانی کے جانوروں کے عیوب ونقائص کے تعلق سے اب آپ بہار شریعت ، عالمگیری، شامی، شرح وقایہ، فتاوی قاضی خاں، وغیرہ کے مباحث پڑھیں گے، تو ان شاء اللہ آپ پر ہر چیز عیاں ہوتی چلی جائے گی۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
مجیب:
مفتی نظام الدین مصباحی برکاتی دامت برکاتہم العالیہ، شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ، مبارک پور
[ماخوذ از ماہنامہ اشرفیہ، اگست 2018، ص: 15 - 21]
0 آپ کے تاثرات/ سوالات: