Headlines
Loading...
قربانی کے شرکاء میں سے اگر کسی نے مال حرام کے ذریعے شرکت کی تو قربانی کا کیا حکم ہے؟؟

قربانی کے شرکاء میں سے اگر کسی نے مال حرام کے ذریعے شرکت کی تو قربانی کا کیا حکم ہے؟؟

Fatwa No. #233

سوال:   قربانی کے شرکا میں سے کسی ایک نے خاص مال حرام کے ذریعہ شرکت کی، تو اس کی وجہ سے باقی شرکا کی قربانی پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا کسی کی قربانی نہ ہوگی، یا شرعاً کچھ گنجائش ہے؟
المستفتی: طلبہ جامعہ اشرفیہ، مبارک پور

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

مال حرام کمانا حرام ہے اور اسے اپنے دنیوی یا دینی کام میں استعمال کرنا بھی حرام۔ اور ایسے شخص پر لازم ہے کہ جس سے مال حرام ناحق لیا ہے اسے واپس کر دے، وہ نہ ہو تو اس کے وارثین کو دے، آج نہیں دے گا تو کل قیامت کے دن اس کے بدلے میں اس کی نیکیاں صاحب حق کو دے دی جائیں گی۔ ان سب کے باوجود اگر کسی ناخدا ترس نے ایسے مال حرام کے ذریعہ قربانی میں شرکت کرلی تو واجب ادا ہو جائے گا اور قربانی سب کی صحیح ہوگی، کیوں کہ مال حرام کی نحوست اور اس کی نجاست جانوروں میں سرایت نہیں کرتی۔

اس کے لیے فقہا نے ایک ضابطہ بتایا ہے کہ [خریدتے وقت نقد و عقد دونوں جمع ہو جائیں تو مال کی خیانت خریدے ہوئے سامان میں سرایت کرتی ہے اور سامان بھی خبیث اور ناپاک ہو جاتا ہے اور اگر مال حرام پر عقد و نقد دونوں نہ جمع ہوں، بلکہ صرف مال حرام پر عقد ہو یا مال حرام کو صرف نقد میں ادا کرے تو اس کی نجاست و خباثت خریدے ہوئے مال میں اثر نہیں کرتی]

عقد و نقد کے جمع ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ مثلاً کہا: یہ دو ہزار کا نوٹ ہے اور وہ حرام نوٹ تھا، کسی سے چھین کر لایا تھا اسے دکھا کر کہا کہ ”اس دو ہزار کے نوٹ کے بدلے میں میں نے آپ سے یہ بکری خریدی“ بیچنے والے نے اسے منظور کر لیا تو عقد ہوا مال حرام پر، پھر اس نے یہی مال حرام نقد میں بھی دے دیا، تو خریداری میں عقد و نقد دونوں جمع ہو گئے مال حرام پر۔

اور جب عقد و نقد دونوں مال حرام پر، جمع ہو جائیں تو اس کی نجاست و خباثت خریدے ہوئے مال میں بھی اثر کر جاتی ہے۔

لیکن آج کل خریداری کا جو طریقہ ہے اس میں نقد و عقد ایک ساتھ جمع نہیں ہوتے کیوں کہ کوئی روپیہ دکھا کر یہ نہیں کہتا ہے کہ یہ جو میرے ہاتھ میں روپیہ ہے اس کے بدلے میں میں نے تم سے یہ جانور خریدا۔ ایسا کوئی نہیں کہتا۔ سامان خرید لیتا ہے، جیب میں سے روپیہ نکال کر دے دیتا ہے۔ اس طرح نقد تو پایا جا سکتا ہے مال حرام پر، لیکن عقد نہیں پایا جا تا مال حرام پر۔ اور جب صرف نقد پایا جائے مال حرام پر عقد نہ پایا جائے تو اس کی خباثت خاص اس مال تک محدود رہتی ہے، خریدے ہوئے مال میں نہیں پہنچتی۔

لہذا قربانی کا جانور آج کے عرف کے پیش نظر طیب و حلال ہے۔ اس کی قربانی صحیح و درست ہے تو سارے شرکا کی طرف سے بھی قربانی صحیح و درست ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔
مجیب:
مفتی نظام الدین مصباحی برکاتی دامت برکاتہم العالیہ، شیخ الحدیث و مفتی وسابق پرنسپل جامعہ اشرفیہ مبارک پور

[ماخوذ از ماہنامہ اشرفیہ، اگست 2018، ص: 20، 21]

واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.