Fatwa No. #234
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ محرم الحرام میں لوگ کھچڑا بناتے ہیں، یہ کہاں سے ثابت ہے؟
المستفتی:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب بعون الملک الوھاب:
جہاں سے شادی کا قورمہ، ولیمہ کی بریانی، افطار میں شربت، ناشتہ میں روٹی، دوپہر کے کھانے میں چاول، صبح شام کی چائے ثابت ہے بس وہیں سے محرم الحرام کا کھچڑا بھی ثابت ہے۔ کھچڑا میں ہوتا کیا ہے؟ مختلف دالیں، گیہوں، جو، گوشت وغیرہ اور مختلف مصالحے، جب یہ تمام الگ الگ محرم میں بھی جائز تو ان کا مجموعہ کیوں ناجائز ہو جائے؟ یہ بالکل ظاہر ہے کہ حلال چیزوں کا مجموعہ حلال ہی ہوگا، حرام نہ ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ سوال ہی جہالت پر مبنی ہے۔ بلکہ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا مسئلہ ہے کہ دلیل مدعی سے مانگی جاتی ہے نہ کہ مدعی علیہ سے۔ مدعی وہ ہوتا ہے جو دعویٰ کرے اور دعویٰ ایسی بات کو کہتے ہیں جو خلاف اصل ہو، جب کہ چیزوں میں اصل ان کا جائز و حلال ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی چیز کا جائز ہونا دلیل کا محتاج نہیں۔ کھچڑا کھانا کھلانا جائز ہے، اسے کوئی مسلمان فرض و واجب نہیں کہتا، نہ سمجھتا ہے۔ لہٰذا کھچڑا کے جواز و عدم جواز والے مسئلے میں جائز کہنے والا مدعی نہیں ہے بلکہ مدعی تو وہ ہے جو اسے ناجائز کہتا ہے، اب وہ دلیل لائے کہ اس کا ناجائز ہونا کہاں سے ثابت ہے؟
رہی بات چیزوں میں اصل ان کا جائز ہونا کیوں ہے؟ تو اس کی وجہ یہی کہ اللہ تعالیٰ نے ساری چیزیں ہمارے لیے بنائیں۔ جن چیزوں کو ناجائز و حرام کرنا تھا اسے صاف بیان فرما دیا، دین مکمل ہو چکا، اب کوئی انسان اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام ٹھہرانے کا اختیار نہیں رکھتا، اگر ٹھہراتا ہے تو مفتری ہے۔احادیث مبارکہ میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس سے متعلق کوئی حکم نہیں دیا وہ معاف ہیں بلکہ ان سے متعلق بحث و مباحثہ سے بھی منع فرمایا۔ احتیاط یہ نہیں کہ کسی چیز کو بغیر دلیل شرعی کے حرام ٹھہرایا جائے، ناجائز و حرام وہی چیزیں ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرار دیا، محض ہوائے نفس کی بنیاد پر کسی چیز کو حرام نہیں قرار دیا جا سکتا۔
کھچڑا کھانا کھلانا ایک جائز و مباح کام تھا اگر اس میں اچھی نیت شامل کر لیں تو اب یہ صرف مباح کام نہیں رہ جاتا بلکہ کار ثواب ہو جاتا ہے۔
احادیث مبارکہ میں مذکور ہے کہ جو تو اپنے اہل و عیال کو کھلائے وہ صدقہ ہے، جو تو اپنے بھائی کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے بلکہ جو تو خود کھائے وہ بھی صدقہ ہے۔
یہ تو ایک عمومی بات تھی۔ خاص عاشورا کے دن اپنے اہل و عیال پر رزق کو وسعت دینے سے متعلق کئی احادیث مرفوعہ موجود ہیں جن میں سے بعض صحیح یا حسن ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث پاک وہ ہے جسے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے، مزید کہتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا جسے ابن عبد البر نے اپنی کتاب الاستذکار میں بیان کیا۔ نیز اس حدیث پاک کو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے امام طبرانی نے اپنی معجم میں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سند سے شعب الایمان میں امام بیہقی نے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے اسحاق بن راہویہ نے اپنی مسند میں، اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سند سے دارقطنی نے ذکر کیا ہے۔
ان احادیث مبارکہ کی سندی حیثیت دیکھنے کے لیے حافظ ابو الفضل زین الدین العراقی الشافعی (المتوفی: 806) کی کتاب التوسعة على العيال کا مطالعہ کریں۔ (ویب سائٹ پر فتوی نمبر 235# اور فتوی نمبر 90# مطالعہ کریں۔)
کیا کھچڑا بنانا، اپنے اہل و عیال کو کھلانا رزق میں وسعت دینا نہیں؟ خاص کھچڑے سے متعلق بعض بزرگوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ سے لگی تو وہ عاشورا کا دن تھا جس میں آپ علیہ السلام نے مختلف دال اور پیاز ملا کر ایک کھانا تیار کیا، اسی مناسبت سے اہل مصر اس دن کھچڑا بناتے ہیں، کہ اچھوں سے مشابہت بھی اچھی ہوتی ہے۔
دلیل مدعی پر ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في خطبته: البينة على المدعي، واليمين على المدعى عليه. [سنن الترمذي، أبواب الأحكام، حديث: 1341]
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دلیل مدعی پر ہے اور قسم مدعی علیہ پر۔
مدعی وہ ہے جس کی بات خلاف اصل ہو۔ جیسا کہ الفروق میں ہے:
المدعي هو كل من كان على خلاف أصل أو عرف والمدعى عليه هو كل من كان قوله على وفق أصل أو عرف. [الفروق للقرافي، باب الفرق بين قاعدة الحصانة، ج: ٣، ص: ١٥٠، عالم الكتب]
مدعی وہ ہے جس کی بات خلاف اصل یا خلاف عرف ہو اور مدعی علیہ وہ ہے جس کی بات اصل یا عرف کے موافق ہو۔
اللہ تعالی نے ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے بنائی۔ وہ ارشاد فرماتا ہے:
﴿هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ [البقرة: ٢٩]
وہی ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لئے بنایا۔
اللہ تعالیٰ نے جس سے متعلق کوئی حکم نہیں دیا وہ معاف ہیں۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
عن سلمان الفارسي، قال: سئل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن السمن والجبن والفراء، قال: الحلال ما أحل الله في كتابه، والحرام ما حرم الله في كتابه، وما سكت عنه فهو مما عفا عنه. [سنن ابن ماجة، كتاب الأطعمة، باب أكل الجبن، ج: ٤، ص: ٤٥٤، دار الرسالة]
حضرت سلمان فارسی رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے گھی اور پنیر اور حمار وحشی کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ حلال وہ ہے جسے الله نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جسے الله نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے سکوت فرمایا تو وہ اس میں سے ہے جس سے معافی دی۔
بلکہ ان سے متعلق بحث و مباحثہ سے بھی منع فرمایا جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
عن أبي ثعلبة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله فرض فرائض فلا تضيعوها، ونهى عن أشياء فلا تنتهكوها، وحد حدودا فلا تعتدوها، وغفل عن أشياء من غير نسيان فلا تبحثوا عنها. [المعجم الكبير للطبراني، باب مكحول عن أبي ثعلبة، حديث: ٦٧٧، ج؛ ٢٢، ص: ٢٦٣، القاهرة]
حضرت ابو ثعلبہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض ٹھہرائے ہیں تو تم اسے ضائع نہ کرو، اور کچھ چیزوں سے منع فرمایا ہے تو ان کی حرمت کو پامال نہ کرو، اور کچھ حدود قائم کیے ہیں تو اس سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں کو بغیر نسیان کے چھوڑ دیا ہے تو اس سے متعلق بحث میں نہ پڑو۔
اسی وجہ سے علما نے فرمایا کہ چیزوں میں اصل ان کا جائز ہونا ہے۔ جیسا کہ رد المحتار میں منقول ہے:
صرح في التحرير بأن المختار أن الأصل الإباحة عند الجمهور من الحنفية والشافعية. [رد المحتار، كتاب الطهارة، باب سنن الوضوء، ج: ١، ص: ١٠٥، دار الفكر بيروت]
تحریر میں اس بات کی صراحت ہے کہ جمہور حنفیہ و شافعیہ کے نزدیک اصل اباحت ہے۔
نیز حدیث پاک ”الحلال بين“ کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”الحلال بين“ أي: واضح لا يخفى حده بأن ورد نص على حله أو مهد أصل يمكن استخراج الجزئيات منه كقوله تعالى: ﴿خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ فإن اللام للنفع، فعلم أن الأصل في الأشياء الحل، إلا أن يكون فيه مضرة. [مرقاة المفاتيح، كتاب البيوع، باب الكسب، ج: ص: ١٨٩٤، دار الفكر بيروت]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال بین ہے یعنی واضح ہے، جس کی پہچان مخفی نہیں بایں طور کہ اس کی حلت پر نص وارد ہے یا یہ کسی ایسے اصل سے ماخوذ ہے جس سے جزئیات نکالے جائیں جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ بے شک اس میں لام نفع کے لیے ہے تو اس سے یہ پتہ چلا کہ چیزوں میں اصل ان کا حلال ہونا ہے مگر یہ کہ اس میں کوئی ضرر ہو۔
مختلف حلال چیزوں کا مجموعہ حلال ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إن أفراد المباحات إذا اجتمعت كان ذلك المجموع مباحا. [إحياء علوم الدين، كتاب آداب السماع والوجد، الباب الأول، ج: 2، ص: 273، دار المعرفة بيروت]
بے شک مباحات کے افراد جب جمع ہوتے ہیں تو ان کا مجموعہ مباح ہی ہوتا ہے۔
حرام وہی چیزیں ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا، محض ہوائے نفس کی بنیاد پر کسی چیز کو حرام نہیں قرار دیا جا سکتا۔ جیسا کہ ﴿ قُلْ لَّاۤ اَجِدُ فِیْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا﴾ کے تحت تفسیر نسفی میں ہے:
وفيه تنبيه على أن التحريم إنما يثبت بوحي الله وشرعه لا بهوى الأنفس. [مدارك التنزيل، سورة الانعام، آية 145، ج: 1، ص: 544، دار الكلم الطيب بيروت]
اس میں اس بات کی طرف تنبیہ ہے کہ حرمت کا ثبوت وحی الہٰی یا اس کی شریعت ہی سے ہوگا نہ ہوائے نفس سے۔
احتیاط یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ پر افترا کرتے ہوئے کسی چیز کو بغیر دلیل شرعی کے حرام قرار دیا جائے۔ شامی میں ہے:
وليس الاحتياط في الافتراء على الله تعالى بإثبات الحرمة أو الكراهة اللذين لا بد لهما من دليل بل في القول بالإباحة التي هي الأصل. [رد المحتار، كتاب الأشربة، ج: ٦، ص: ٤٥٩، دار الفكر بيروت]
احتیاط یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ پر افترا کرتے ہوئے کسی چیز میں حرمت یا کراہت کو ثابت کیا جائے جن کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ احتیاط چیزوں کو مباح کہنے میں ہے کہ یہی اصل ہے۔
مباح کام بھی اچھی نیتوں کی وجہ سے کار ثواب ہو جایا کرتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے:
إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرىء ما نوى. [صحيح البخاري، الحديث: 1]
بے شک اعمال نیت ہی سے ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔
نیز شرح حموی میں ہے:
إن المباح يختلف صفة باعتبار ما قصد لأجله. [غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر، ج: 1، ص: 97، دار الکتب العلمیة بيروت]
بے شک مباح کی صفت بدل جاتی قصد کے لحاظ سے۔
رد المحتار میں ہے:
إن النية تصير العادات عبادات والمباحات طاعات. [رد المحتار، كتاب الأضحية، ج: 6، ص: 326، دار الفكر بيروت]
بے شک نیت عادات کو عبادات سے، مباحات کو طاعات سے بدل دیتی ہے۔
اپنے اہل و عیال کو کھلانا بلکہ خود کھانا بھی صدقہ ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
عن المقدام بن معد يكرب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما أطعمت نفسك فهو لك صدقة، وما أطعمت ولدك فهو لك صدقة، وما أطعمت زوجك فهو لك صدقة، وما أطعمت خادمك فهو لك صدقة، رواه أحمد، ورجاله ثقات. [مجمع الزوائد، كتاب الزكاة، باب نفقة الرجل على نفسه، الحديث: 4660، ج: 3، ص: 119، مكتبة القدسي]
حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو تو خود کھائے وہ تیرے لیے صدقہ ہے، جو تو اپنی اولاد کو کھلائے وہ تیرے لیے صدقہ ہے، جو تو اپنی اہلیہ کو کھلائے وہ تیرے لیے صدقہ ہے، جو تو اپنے خادم کو کھلائے وہ تیرے لیے صدقہ ہے۔ اسے امام احمد بن حنبل نے روایت کی اور اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔
خاص عاشورا کے دن اپنے اہل و عیال پر رزق کو وسعت دینے سے متعلق کئی احادیث مرفوعہ موجود ہیں۔ جیسا کہ الاستذکار میں ہے:
عن جابر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من وسع على نفسه وأهله يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته..... قال جابر جربناه فوجدناه كذلك..... وقال أبو الزبير وقال شعبة مثله..... قال يحيى بن سعيد جربنا ذلك فوجدناه حقا..... قال سفيان جربنا ذلك فوجدناه كذلك. [الاستذكار، كتاب الصيام، باب صوم يوم الفطر، ج: 3، ص: 331، دار الكتب العلمية بيروت]
یعنی حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص عاشورے کے دن اپنے اور اپنے اہل پر (رزق میں) کشادگی کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے لیے کشادگی فرما دے گا۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ ہم نے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا اسی طرح کا قول حضرت ابو زبیر، شعبہ، یحیی بن سعید، سفیان کا ہے۔ رحمہم اللہ تعالیٰ۔
اس حدیث پاک کے تحت حافظ ابو الفضل زین الدین العراقی الشافعی لکھتے ہیں:
رواه أبو عمر بن عبد البر في الاستذكار بهذا الإسناد. ورجاله كما ترى رجال الصحيح. [التوسعة على العيال، حديث جابر، ص: ١٠، سبكة العميق]
اس کو الاستذکار میں ابو عمر نے اس سند سے روایت کیا اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔
علامہ احمد شہاب الدین علیہ الرحمہ اپنی مشہور کتاب ”قلیوبی“ میں نقل فرماتے ہیں:
وأما طبیخ الحبوب المشهور في مصر فأصله أن نوحا لما فرغ من الطوفان أخرج ما بقي معه من الحبوب وهي سبعة : الفول والشعیر والبر والبصل والعدس والحمص والأرز، فطبخها وکان في یوم عاشوراء. [القليوبي، ص: ١٨٤، انتظامیہ کانپور]
ترجمہ: مصر میں مشہور کھچڑے کی اصل یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ الصلاۃ والسلام جب طوفان سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے ساتھ کے ما بقی غلے کو جمع کیا اور وہ سات چیزیں تھیں: لوبیا، جو، گیہوں، پیاز، مسور، چنا اور چاول۔ آپ نے ان کو پکایا، اور یہ عاشورے کا دن تھا۔
والله أعلم عزوجل ورسوله أعلم صلی الله تعالی علیه و آله وسلم
کتبہ:
محمد وسیم اکرم الرضوي
04 ربیع الغوث 1445 ھ/20اکتوبر 2023ء
ماشاء اللہ سبحان اللہ
جواب دیںحذف کریںبہت اچھا اور مدلل ومفصل مضمون ہے جزاک اللہ خیرا