Headlines
Loading...
کیا فتاوی رضویہ میں تاریخ ولادت 8 ربیع الاول لکھی ہے؟

کیا فتاوی رضویہ میں تاریخ ولادت 8 ربیع الاول لکھی ہے؟

Fatwa No. #236

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کچھ لوگوں نے اعلیٰ حضرت امامِ اہل سنّت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کا حوالہ دے کر ایک اسٹیکر شائع کیا ہے، جس میں درج ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالے ”نطق الہلال“ [فتاویٰ رضویہ، ج: 26]  میں لکھا ہے کہ ولادتِ (پیدائش) نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 8 ربیعُ الاوّل ہے اور وفاتِ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 12 ربیع الاوّل ہے۔

کیا واقعی اعلیٰ حضرت امامِ اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کا یہی موقف ہے کہ حُضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت آٹھ ربیع الاول کو ہوئی؟
المستفتی:

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی تحقیق یہی ہے کہ جشن ولادت بارہ ربیع الاوّل کو منایا جائے۔

    فتاویٰ رضویہ جلد 26 صفحہ 411 پر ہے:

اس(ولادت کی تاریخ کے بارے) میں اقوال بہت مختلف ہیں: دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس، سات (7) قول ہیں، مگر اشہر و اکثر و مأخوذ و معتبر بارہویں ہے۔  مکۂ معظّمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ کو مکانِ مولِد اقدس کی زیارت کرتے ہیں۔ كما في المواهب والمدارج (جیسا کہ مواھب لدنیہ اور مدارج نبوۃ میں ہے) اور خاص اس مکان جنت نشان میں اسی تاریخ میں مجلس میلاد مقدّس ہوتی ہے۔

    فتاویٰ رضویہ جلد 26 صفحہ 427 پر ہے:

شرع مطہر میں مشہور بین الجمہور ہونے کے لیے وقعت عظیم ہے (یعنی جو موقف اکثر علما کا ہو وہ خود ایک بہت بڑی دلیل ہوتی ہے) اور مشہور عند الجمہور 12 ربیع الاول ہے اور علِم ہیئت و زیجات کے حساب سے روز ولادت شریف 8 ربیعُ الاوّل ہے۔

    مزید فرماتے ہیں

تعامل مسلمین حرمین شریفین و مصر وشام بلاد اسلام و ہندوستان میں بارہ ہی پر ہے۔ اس پر عمل کیا جائے۔ الخ.            [فتاویٰ رضویہ، ج: 26، ص: 427، رضا فاؤنڈیشن، لاہور]

    جب کوئی محققِ وقت کسی مسئلے پر قلم اٹھاتا ہے، تو وہ اس مسئلے سے متعلّق مختلف لوگوں کی آراء اور اقوال بھی نقل کرتا ہے۔ اس مقام پر امامِ اہل سنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ نے اسی طرح کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے مختلف لوگوں کے موقف کو بھی بیان فرمایا اور علم زیج والوں کا قول بھی نقل کیا کہ وہ تمام کے تمام آٹھ ربیعُ الاوّل کو یوم ولادت قرار دیتے ہیں۔

    محض آدھی بات کو لے کر پروپیگنڈا کرنا اور اس بات کو چھوڑ دینا  کہ امامِ اہل سنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جمہور کا موقف کس تاریخ کو قرار دیا ہے اور کس تاریخ کو جشنِ ولادت منانے کی تاکید کی ہے، انصاف کے خلاف اور غلط روش ہے۔ خود امامِ اہل سنّت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے اشعار میں بارہویں تاریخ ہی کو لے کر لمحات مسرّت ہونا بیان کیا اور برادر اعلیٰ حضرت نے تو ایک پورا کلام ہی بارہویں تاریخ کا قافیہ لے کر کہا ہے اور ان کا وصال امامِ اہل سنّت کی زندگی ہی میں ہوا اور امامِ اہلسنّت ان کے کلام کے پڑھنے کی تاکید کرتے رہے۔ پھر یہ کہنا اور تاثر دینا کہ 12 تاریخ کو جشنِ ولادت منانا امامِ اہل سنّت  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی  مَنْشا کے خلاف ہے، بہت بڑی زیادتی ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
كتبه: مفتی علی اصغر صاحب مد ظلہ العالی
مفتی دعوت اسلامی (دار الافتاء اہل سنت)

واٹس ایپ چینل جوائن کریں

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.