اگر مقتدی امام سے پہلے تشہد، درود و دعا سے فارغ ہو جائے تو کیا کرے؟
Fatwa No. #239
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر (مقتدی) امام سے قبل بعد تشہد درود شریف ودعا سے فارغ ہوگیا ،تو سلام پھیرنے تک زید کچھ پڑھے یا خاموش رہے، شرکت جماعت ابتدائی ہو یا درمیانی؟
المستفتی:
از شہر کہنہ، بریلی
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب:
خلاصۂ جواب
اگر مقتدی امام سے پہلے تشہد اور درود و دعا سے فارغ ہوجائے یا مقتدی کے تشہد اور درود و دعا پڑھنے کے دوران امام سلام پھیر دے تو اس کی چار صورتیں ہیں:
1- قعدہ اخیرہ میں امام سے پہلے فارغ ہو:
مقتدی اس صورت میں چاہے تو:
1- تشہد دوبارہ پڑھ لے۔
2- یا صرف شہادت کی تکرار کرے۔
3- یا اور کوئی دعائے ماثورہ پڑھے یا ایسے الفاظ میں دعا کرے جو مشابہ الفاظ قرآن ہو۔
4- یا چاہے تو خاموش رہے۔
ہاں افضل یہ ہے تشہد وغیرہ جلدی جلدی نہ پڑھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تاکہ امام کے ساتھ ہی فارغ ہو۔
2- قعدہ اولیٰ میں امام سے پہلے فارغ ہو:
اس صورت میں حکم یہ ہے کہ خاموش بیٹھا رہے، کچھ نہ پڑھے۔
3- تشہد میں مشغول ہونے کے دوران امام سلام پھیردے:
اس صورت میں حکم یہ ہے کہ تشہد مکمل پڑھ کر ہی امام کی اتباع کرے۔ امام کے ساتھ فوراً سلام نہ پھیرے
4- درود و دعا میں مشغول ہونے کے دوران امام سلام پھیردے:
اس صورت میں درود و دعا پڑھنا موقوف کرکے امام کی اتباع میں اس کے ساتھ سلام پھیردے۔ (از کمال احمد عطاری مصباحی )
اصل جواب
مقتدی اگر امام سے قبل تشہد اور درود و دعا سے فارغ ہو جائے تو تشہد کو اول سے مکرر (دوبارہ) پڑھے یا کوئی دوسری دعا محفوظ، یا وہ جو مشابہ الفاظ قرآن ہو کرے، یا کلمہ شہادت کی تکرار کرے، یا سکوت کرے، جو چاہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ عجلت سے نہ پڑھے، اس طرح پڑھے کہ امام کے ساتھ فارغ ہو۔
غنیہ میں ہے:
إذا فرغ من التشهد قبل سلام الإمام يكرره من أوله، وقيل: يكرر كلمة الشهادة - وقيل: يسكت، وقيل: يأتي بالصلاة والدعاء. والصحيح أنه يترسل ليفرغ من التشهد عند سلام الإمام. [غنية المستملي شرح منية المصلي، ص: ٤٧٨]
ترجمہ: اگر مقتدی امام کے سلام پھیرنے سے پہلے تشہد سے فارغ ہو جائے تو تشہد کو اول سے مکرر پڑھے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ کلمہ شہادت کی تکرار کرے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ سکوت کرے۔ اور بعض کا قول ہے کہ درود و دعا پڑھے ، جب کہ صحیح یہ ہے کہ عجلت سے نہ پڑھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تا کہ امام کے ساتھ فارغ ہو۔
اور اگر قعدہ اولیٰ میں امام سے پہلے تشہد سے فارغ ہو تو تا فراغِ امام خاموش ہی بیٹھے۔ یہاں اقوال مختلفہ نہیں۔
اسی میں ہے:
إذا فرغ من التشهد الأول قبل فراغ إمامه فإنه يسكت قولاً واحداً. [غنية المستملي شرح منية المصلي، ص: ٤٧٨]
ترجمہ: جب تشہد اول سے امام کے فارغ ہونے سے پہلے فارغ ہو جائے تو سکوت کرے۔
اس اشتغال یا سکوت کو تاخیر سلام سے علاقہ نہیں، تاخیر تو جب ہوتی کہ جب تشہد و درود و دعا سے فارغ ہوتے ہی سلام واجب ہوتا ، خروج عن الصلاة بالفظ السلام واجب ہے۔ نہ یہ کہ تشہد و درود و دعا پڑھتے ہی سلام معاً واجب ہے۔ جائز ہے کہ وہ ایک دعا کے بعد اور چند ادعیہ پڑھے۔
پھر یہاں تو ہر طرح متابعت امام میں ہے، جب تک امام سلام نہ پھیرے۔ ہاں اگر امام قبل فراغ مقتدی از درود و دعا سلام پھیر دے تو اس لیے کہ یہ درود و دعا سنت ہے، مقتدی کو چاہیے کہ متابعت امام کرے، سلام امام کی متابعت میں پھیرے۔ متابعت امام فرائض و واجبات میں بے تاخیر لازم، جب کہ کوئی دوسرا واجب عارض نہ ہو، اور اگر کوئی واجب عارض ہو تو یہ نہ کرے کہ اس واجب کے سبب اس کو بالکل ترک کر دے، بلکہ اسے کرے، اور پھر متابعت بے تاخیر بجا لائے، اس لیے کہ اس واجب کو کر لینا متابعت کو بالکلیہ فوت نہیں کرتا، صرف مؤخر کرتا ہے، اور متابعت بے تاخیر سے واجب بالکل فوت ہوتا ہے تو ایک واجب کی تاخیر ایک کی بالکل تفویت سے اولی ہوئی، ہاں اگر واجب کے موقع پر کوئی سنت عارض ہو تو اسے ترک کیا جائے گا، کہ ترک سنت تاخیر واجب سے اولیٰ ہے۔
هكذا في الغنية. والله تعالى أعلم
کتبہ:
شہزادۂ اعلی حضرت، مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن
[فتاویٰ مفتی اعظم، ج: 3، ص: 20، 21، امام احمد رضا اکیڈمی]
0 آپ کے تاثرات/ سوالات: