کیا شب معراج حضور کو دیدار الٰہی ہوا؟

Fatwa No. #244

سوال: زید کہتا ہے کہ حضور سرور عالم ﷺ کو معراج شریف میں اللہ رب العزت کا دیدار نہیں ہوا ہے اور دنیا میں کسی کو نہیں ہوا ہے، حالاں کہ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نناوے بار اللہ تعالیٰ کا دیدار محض قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا ہے۔ آیا یہ کہنا کہاں تک صحیح ہے؟ براے مہربانی جلد از جلد مع حوالہ جات جواب مرحمت فرمائیں اور جو دیدار کا منکر ہے اس کے واسطے کیا حکم ہے؟
المستفتی:

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

زید کا یہ قول صحیح نہیں مرجوح ہے۔ صحیح و راجح و مختار یہ ہے کہ حبیب خدا اشرف انبیا محمد رسول اللہ ﷺ کو دیدارِ الٰہی ہوا، دنیا میں ہی حضور بہت مرتبہ دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوئے چناں چہ احادیث میں وارد ہے:

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ رَأَيْتُ رَبِّي عَزَّوَجَلَّ في أَحْسَنِ صُوْرَةٍ. [علامه ولی الدین محمد بن عبد الله خطیب تبریزی، مشكوٰة المصابيح، كتاب الصلوٰة، باب المساجد، ص: ٦٩، مجلس البركات مبارك فور]

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میں نے اپنے رب عزوجل کو بہترین صفت میں دیکھا۔

اسی حدیث کے حاشیہ پر ہے:

إِنْ كَانَ رُؤيَا مَنَامٍ كَمَا فِي رِوَايَةٍ فَلَا إِشْكَالَ وَإِنْ كَانَ رُؤيَةً لِيَقَظَةِ كَمَا فِي أُخْرٰى فَلَا بُدَّ مِنَ التَّاوِيْلِ أَوْ هُوَ مَخْصُوْصٌ بِهِ ﷺ كَمَا فِي لَيْلَةِ الْمِعْرَاجِ عَلَى الْقَوْلِ الْمُخْتَارِ. [الشيخ محمد بن بارك الله البنجابی، حاشية مشكاة المصابيح، ص: 69، مجلس البركات، مبارک فور]

اگر حدیث میں خواب میں دیدارِ الٰہی مراد ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے تب تو کوئی اشکال نہیں اور اگر بیداری میں دیدارِ الٰہی مراد ہے جیسا کہ دوسری روایت میں ہے تو تاویل ضروری ہے۔ یہ کہ دنیا میں بحالت بیداری دیدارِ الٰہی حضور کے ساتھ مخصوص ہے جیسا کہ شبِ معراج قولِ مختار پر حضور کو دیدارِ الٰہی ہوا۔

اس عبارت سے دو امر ثابت ہوئے، اول یہ کہ دنیا میں ظاہری نظر سے دیدارِ الٰہی حضور کا خاصہ ہے۔ دوسرے شبِ معراج میں ظاہری نظر سے حضور کو دیدارِ الٰہی ہوا یہی قول مختار ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طویل حدیث میں ہے:

فَإِذَا أَنَا بِرَبِّیْ تَبَارَكَ وَتَعَالٰی فِیْ أَحْسَنِ صُورَةٍ. [علامه ولى الدين محمد بن عبد الله خطيب تبريزى، مشكوٰة المصابيح، كتاب الصلوٰة، باب المساجد، ص: ۷۲، مجلس بركات، مبارك پور]

یعنی حضور نے فرمایا: ناگاہ میں اپنے رب تبارک وتعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوں۔

اسی حدیث میں ہے:

قَالَ: فَرَأَيْتُهٗ وَضَعَ كَفَّهٗ بَيْنَ كَتِفِیْ حتّٰى وَجَدْتُ بُرْدَ أَنَامِلَهٗ بَيْنَ ثَدْى فَتَجَلّٰی لِی كُلَّ شَيءٍ وَعَرَفْتُ. [علامه ولی الدین محمد بن عبد الله خطیب تبریزی، مشكوٰة المصابيح، باب المساجد، ص: ۷۲ ، مجلس بركات، مبارك پور]

یعنی حضور نے فرمایا دیکھا میں نے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو کہ اپنا دست قدرت میرے شانوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینہ میں پائی، پس ہر چیز میرے لیے روشن ہو گئی اور میں نے پہچان لیا۔

ان حدیثوں سے دنیا ہی میں حضور کے لیے دیدارِ الٰہی ثابت ہے۔ رہا یہ کہ کس کیفیت سے آپ کو دیدارِ الٰہی ہوا اس کو اللہ تعالیٰ جانے اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم۔ حضور کے صدقے بزرگان دین و اولیائے کاملین کو بھی یہ نعمت دنیا میں نصیب ہوئی مگر دل کی آنکھ سے یا خواب میں۔ اسی طرح حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچشمِ باطن دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوئے اور جنت میں عامۂ مومنین کو یہ نعمت ظاہری آنکھوں سے نصیب ہوگی جیسا کہ احادیث کثیرہ شہیرہ میں فرمایا:

سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ الْقَمَرَ لَيْلَةَ البَدْرِ. [محمد بن عیسیٰ الترمذي، سنن الترمذي، كتاب صفة الجنة، باب منه، رؤية الرب تبارك وتعالىٰ، ص: ۹۷، مجلس البركات مباركفور]

تم جنت میں اپنے رب کو اتنا ظاہر دیکھو گے جیسے چودھویں رات کے چاند کو دیکھتے ہو۔

حضور اقدس ﷺ جب شبِ معراج جنت میں تشریف لے گئے تو پھر دیدارِ الٰہی ہونے میں کیا شبہہ، اگر چہ شبِ معراج کی کیفیت دیدار میں اختلاف ہے لیکن قول صحیح و مختار یہ ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے شبِ معراج میں ظاہری نظر سے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھا، حضرت شیخ محقق مولانا شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ”اشعۃ اللمعات شرح مشکاۃ شریف“ میں فرماتے ہیں:

شیخ محی الدین نووی گفتہ کہ راجح و مختار نزد اکثر علما کبار آنست کہ آنحضرت دید پروردگار خود را بچشم سر۔ [شیخ محقق علامه عبد الحق محدث دهلوى، اشعۃ اللمعات شرح مشكاة شريف، ج: ۴، ص: ٢٣٢]

شیخ محی الدین نووی نے فرمایا کہ اکثر اکابر علما کے نزدیک راجح اور مختار یہ ہے کہ آں حضرت ﷺ نے اپنے پروردگار کا سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ (ت۔ مصباحی)

احادیث کریمہ و اقوال ائمہ سے معلوم ہوا کہ حضور اقدس ﷺ کو دیدارِ الٰہی ہوا اور شبِ معراج میں ظاہری آنکھوں سے آپ کو دیدار ہوا۔ یہی مذہب راجح و مختار ہے۔ لہٰذا زید کا قول مرجوح و نا مقبول ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم.
کتبــــــه:
جلالة العلم حافظ الملة والدين العلامة عبد العزیز المحدث المرادآبادي ثم المبارکفوری علیه الرحمة والرضوان

[فتاویٰ جامعہ اشرفیہ، ج: 1، ص: 5 تا 7، مجلس برکات جامعہ اشرفیہ، مبارک پور]

ایک تبصرہ شائع کریں