Fatwa No. #248
سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین اور مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں:
کہ زید نے ایک بار کہا تھا کہ ”کافر کو کافر نہیں کہنا چاہیے“ اس کے اس قول پر بکر نے عالم شریعت سے فتویٰ پوچھا، جواب میں مفتی نے زید کے قول کی تردید کی اور اس کو اس بنا پر کافر بتایا۔ بکر نے زید کو جواب سے مطلع کیا اور اس کو توبہ پر مجبور کرنا چاہا لیکن زید نے اپنے اس قول سے انحراف کیا اور انکار کر دیا کہ ایسا قول میں نے ہرگز نہیں کیا ہے۔
لہٰذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کے اس انکار پر (باوجودے کہ اس کے قول پر دو متقی پرہیزگار کی نشان دہی موجود ہے) نیز زید امام ہے، اس کے مقتدیوں پر زید کے اس قول کی اطلاع ہو چکی ہے اور وہ بھی یہی جانتے ہیں کہ شریعت نے زید کو گمراہ بتایا ہے۔ اس سے ہر طور سے الگ رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اس کے پیچھے جب تک توبہ نہ کرے نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ اس کے باوجود اس کے مقتدیوں نے کسی قسم کی بیزاری کا اظہار نہیں کیا۔ اس کے پیچھے نماز پڑھی، شک نہیں کیا بلکہ اس کے معین و مددگار بنے رہے۔ لہٰذا اب عوام کا کیا حکم ہے۔
بينوا وتوجروا على طريقة الحقيقة.
المستفتی:
(مولوی) عبد اللطيف، کستور بازار، ڈاک خانہ کوئندہ، ضلع مان جھوم
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب:
زید کا یہ قول کہ کافر کو، کافر نہیں کہنا چاہیے، فرمان الٰہی کے خلاف ہے۔
قرآن مجید کا ارشاد ہے:
قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ. لَآ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ. [الكافرون: 102]
تم فرماؤ اے کافرو، میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کو تم پوجتے ہو۔
اس آیت پاک میں اللہ عزوجل نے حکم دیا کہ کافروں کو کافر کہیں اور زید اس کا انکار کرتا ہے۔ یہ زید کی جہالت ہے اور بد دینی ہے۔ بد دینیوں، وہابیوں نے اپنے کفریات پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ مسئلہ گڑھا ہے کہ کافر کو کافر نہیں کہنا چاہیے۔ وہابیوں سے سن کر بعض جاہلوں نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے۔ زید اگر صاحب علم ہے تو یہ قول اس کی بد دینی اور وہابیت پر دلیل ہے۔ اور جب کہ دو متقی شاہد یہ شہادت دیتے ہیں کہ زید نے ان کے سامنے کہا کہ کافر کو کافر نہیں کہنا چاہیے تو زید کا یہ قول ثابت ہو گیا اور یہ کہنا کہ ایسا قول میں نے ہرگز نہیں کیا ہے، یہ شہادت موجود ہوتے ہوئے ہرگز نہیں سنا جائے گا۔ اگر شہادت نہیں ہوتی تو زید کا انکار اس کے قسم کے ساتھ مان لیا جاتا لیکن جب کہ دو معتبر لوگ گواہی دے رہے ہیں تو زید اگر قسم کھا کر بھی انکار کرے تب بھی ہرگز معتبر نہیں۔
حدیث میں ہے:
اَلْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِی وَالْيَمِيْنُ عَلَى الْمُدَّعٰى عَلَيْهِ. [الترمذي، سنن الترمذي، کتاب الأحکام، رقم الحدیث: 1341]
مدعی پر شہادت ہے، اگر شہادت نہ ہوئی تو مدعی علیہ پر قسم ہے۔
لہٰذا شہادت موجود ہوتے ہوئے زید کا انکار ہرگز معتبر نہیں تا وقتے کہ زید اپنے قول اور وہابیت سے اصلاً خالص توبہ نہ کرے، اس کی اقتدا درست نہیں۔ جو مسلمان با وجود مطلع ہونے کے اس حالت میں زید کے معین و مددگار ہیں اور اس کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں، ان کو اپنے اس فعل سے توبہ کرنا چاہیے اور زید جب تک توبہ نہ کرے اس سے قطع تعلق کریں۔
والله تعالیٰ أعلم.
کتبــــــه:
جلالة العلم حافظ الملة والدين العلامة عبد العزیز المحدث المرادآبادي ثم المبارکفوري علیه الرحمة والرضوان
[فتاویٰ جامعہ اشرفیہ، ج: 1، ص: 9، 10،مجلس برکات جامعہ اشرفیہ، مبارک پور]