احادیث مبارکہ کی روشنی میں رفع یدین کا کیا حکم ہے؟

Fatwa No. #254

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ رفع الیدین کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سنت ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ اگر نہیں تو براے کرم احادیث مبارکہ سے اس کا سنت نہ ہونا بیان فرما دیں۔

المستفتی: نامعلوم

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوھاب:

رفع یدین یعنی دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھانا تکبیر تحریمہ میں تو ضرور سنت ہے البتہ اس کے علاوہ مثلاً رکوع کو جاتے، رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع یدین کرنا کیا ہے؟ تو اس سے متعلق ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے، امام اعظم ابوحنیفہ و امام مالک رضی الله تعالیٰ عنہما کے نزدیک خلاف سنت ہے۔ جب کہ امام شافعی و امام احمد بن حنبل رضی الله تعالیٰ عنہما کے نزدیک سنت ہے، دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر احادیث مبارکہ سے دلیل لیتے ہیں۔ البتہ درست یہی ہے کہ رفع یدین نہ کرنا سنت ہے۔ (جب کبھی رفع یدین سے متعلق بحث ہوتی ہے کہ یہ سنت ہے یا نہیں تو اس سے تکبیر تحریمہ کے علاوہ مقامات ہی مراد لیے جاتے ہیں)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائے اسلام میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ بھی رفع یدین فرمایا کرتے تھے، پھر بعد میں صرف تکبیر تحریمہ میں رفع یدین فرمایا اور بقیہ مقامات پر ترک فرما دیا، اس وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بعد تابعین پھر تبع تابعین میں یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا۔

کسی بھی روایت سے یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ رفع یدین فرمایا ہو۔ البتہ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضور نے رفع یدین سے منع فرمایا، نیز شیخین کریمیں ابو بکر و عمر رضی الله تعالیٰ عنہما جن کی ہمیں پیروی کا حکم دیا گیا، مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم، نیز حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله تعالیٰ اور بھی دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہی عمل رہا کہ وہ صرف تکبیر تحریمہ میں رفع یدین فرمایا کرتے، پھر پوری نماز ختم ہو جاتی دوبارہ ہاتھ نہ اٹھاتے۔

اس میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس تعلق سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین کرتے تھے لیکن خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا اپنا عمل اس کے برخلاف ہے، لہذا یہ بھی ایک روشن دلیل ہے کہ رفع یدین کا حکم منسوخ ہے۔

لہٰذا جن احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع یدین کا تذکرہ ہے وہ ابتداے اسلام پر محمول ہیں، اس لحاظ سے دونوں حدیثوں میں کوئی اختلاف نہیں۔

دلائل ملاحظہ فرمائیں:

1... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین نہیں کرتے تھے:

عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم: أنه كان يرفع يديه في أول تكبيرة، ثم لا يعود. [شرح مشكل الآثار، ج: 15، ص: 35، رقم الحديث: 5826، مؤسسة الرسالة، بیروت]

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بس پہلی تکبیر میں رفع یدین فرماتے تھے پھر ہاتھ نہ اٹھاتے۔

نیز سنن ترمذی میں ہے:

عن علقمة، قال: قال عبد الله بن مسعود: ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فصلى، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة۔ وفي الباب عن البراء بن عازب۔ حديث ابن مسعود حديث حسن، وبه يقول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، والتابعين، وهو قول سفيان الثوري، وأهل الكوفة. [الترمذي، سنن الترمذي، أبواب الصلاة، باب رفع اليدين، ج: 2، ص: 40، مصطفى البابي مصر]

ترجمہ: حضرت علقمہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ فرمایا کہ کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی طرح تمہیں نماز نہ پڑھاوں؟ پھر آپ نے نماز پڑھی بس پہلی مرتبہ ہی رفع یدین فرمایا۔ اس باب میں حضرت برا بن عازب رضی الله تعالیٰ عنہ سے بھی روایت ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی االله تعالیٰ عنہ والی حدیث حسن ہے، یہی قول اہل علم میں سے بہت سے صحابہ کرام و تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے، یہی قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے۔

2... حضرت عمر رضی اللہ عنہ رفع یدین نہیں کرتے تھے:

عن الأسود، قال: صليت مع عمر، فلم يرفع يديه في شيء من صلاته إلا حين افتتح الصلاة. [مصنف ابن أبي شيبة، كتاب الصلوات، باب من كان يرفع يديه، ج: 1، ص: 214، رقم الحديث: 2454، مكتبة الرشد، رياض]

ترجمہ: حضرت اسود سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، انہوں نے بس ابتدائے نماز میں رفع یدین کیا اس کے علاوہ اور کہیں نہ کیا۔

3... حضرت علی رضی اللہ عنہ رفع یدین نہیں کرتے تھے:

عن كليب: أن عليا رضي الله عنه كان يرفع يديه في أول تكبيرة من الصلاة، ثم لا يرفع بعد. [شرح معاني الآثار، كتاب الصلاة، باب التكبير للركوع، ج: 1، ص: 225، رقم الحديث: 1353، عالم الكتب]

ترجمہ: حضرت کلیب بن شہاب رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز کی پہلی تکبیر میں رفع یدین فرمایا پھر نہ کیا۔

4... حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رفع یدین نہ کرتے ہوئے بارہا ملاحظہ فرمایا:

عن المغيرة قال: قلت لإبراهيم: حديث وائل أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم يرفع يديه إذا افتتح الصلاة، وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع. فقال: إن كان وائل رآه مرة، فقد رآه عبد الله خمسين مرة لا يفعل ذلك. [شرح مشكل الآثار، ج: 15، ص: 37، رقم الحديث: 5826، مؤسسة الرسالة، بیروت]

ترجمہ: حضرت مغیرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابرہیم علیہ الرحمہ سے کہا کہ حضرت وائل رضی الله تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع یدین فرماتے ہوئے دیکھا جب نماز شروع کرتے، رکوع کو جاتے، رکوع سے اٹھتے۔ تو حضرت ابرہیم نے فرمایا کہ اگر حضرت وائل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع یدین نہ کرتے ہوئے پچاس مرتبہ دیکھا ہے۔

نیز سنن کبری میں ہے:

عن عبد الله بن مسعود قال: صليت خلف النبي صلى الله عليه وسلم وأبى بكر وعمر، فلم يرفعوا أيديهم إلا عند افتتاح الصلاة. [السنن الكبرى للبيهقي، كتاب الصلاة، باب من لم يذكر الرفع، ج: 3، ص: 496، مركز هجر]

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی نماز پڑھی اسی طرح حضرت ابوبکر و عمر رضی الله تعالیٰ عنہما کے پیچھے پڑھی وہ تمام ابتدائے نماز کے علاوہ کہیں اور رفع یدین نہ کرتے تھے۔

5... حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین(بار بار ہاتھ اٹھانے) سے منع فرمایا:

عن جابر بن سمرة، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ اسكنوا في الصلاة [صحيح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب الأمر بالسكون في الصلاة، ج: 1، ص: 322، دار إحياء التراث العربي، بيروت]

ترجمہ: حضرت تمیم بن طرفہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت جابر بن سمرہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو حضور نے فرمایا کیا بات ہے کہ میں تم لوگوں کو شوخ گھوڑوں کی دموں کی طرح رفع یدین کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، نماز سکون کے ساتھ پڑھو۔

6... ابو بکر و عمر کی پیروی کرو، ابن مسعود کی تصدیق کرو:

عن حذيفة قال: كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إني لا أدري ما قدر بقائي فيكم فاقتدوا باللذين من بعدي وأشار إلى أبي بكر وعمر, واهتدوا بهدي عمار, وما حدثكم ابن مسعود من شيء فصدقوه. [مصنف ابن أبي شيبة، كتاب المغازي، باب خلافة أبي بكر، ج: 7، ص: 433، رقم الحديث: 37049، مكتبة الرشد، رياض]

ترجمہ: حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، تو حضور نے ارشاد فرمایا: نہ معلوم میں کب تک تمہارے درمیان رہوں، تو میرے بعد جن دو کی اقتدا کرو وہ یہ ہیں حضور نے حضرت ابو بکر و عمر رضی الله تعالیٰ عنہما کی طرف اشارہ فرمایا۔ اور عمار کی ہدایت سے ہدایت چاہو، اور ابن مسعود جو حدیث بیان کرے اس کی تصدیق کرو۔

7... اپنی امت کے لیے میں اس بات سے راضی جس سے ابن مسعود راضی:

عن القاسم بن عبد الرحمن، قال: حدثت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: رضيت لأمتي بما رضي لها ابن أم عبد. [المعجم الكبير للطبراني، باب العين، ج: 9، ص: 80، رقم الحديث: 8458، القاهرة]

ترجمہ: حضرت قاسم بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اپنی امت کے لیے اس چیز سے راضی ہوں جس سے ابن مسعود راضی۔ واللہ أعلم عزوجل ورسولہ أعلم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم
کتبــــــه:
محمد وسیم أکرم الرضوي ٹٹلاگڑھ، بلانگیر، اڈیشہ، ہند
19 محرم الحرام 1445 ھ/ 07 اگست 2023ء

ایک تبصرہ شائع کریں