Question S. No. #257
کیا فرماتے ہیں علماے دین، مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلے میں:
یہاں اکثر رویت ہلال نہیں ہوتا (1) ابر، یا مطلع غبار آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر آنا مشکل ہے تو کیا تمام کے تمام مہینوں کا حساب 30 کی گنتی پوری کر کے کیا جائے یا کچھ مہینے 29 کے بھی شمار کر لیے جائیں۔
المستفتی: محمد اقبال قادری مصباحی، لیناسٹ، بولٹن، یوکے، برطانیہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب:
اصل حکم یہی ہے کہ اگر 29 کو رویت نہ ہو تو تیس کی گنتی پوری کی جائے ۔ حدیث میں ہے:
فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا ثَلاثِينَ يوما. [نصب الراية، كتاب الصوم، فصل في رؤية الهلال، ج : ٢ ، ص : ٤٥٧ ، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان]
لیکن رویت ہلال کے دوسرے طریقے بھی ہیں۔ ان طریقوں پر عمل کرکے عمل کیا جائے، مثلاً دوسرے بلاد (شہروں) کی رویت کا ثبوت۔ اس کے دو طریقے ہیں شہادت شرعیہ اور استفاضہ۔
شامی میں فرمایا:
كأن يتحمل اثنان الشهادة، أو يشهدا على حكم القاضي، أو يستفيض الخبر بخلاف ما إذا أخبرا أن أهل بلدة كذا رأوه؛ لأنه حكاية. [رد المحتار علی الدر المختار، ص: ٣٦٤ ، ج : ٣ ، باب روية الهلال، دار الكتب العلمية، بيروت]
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک جگہ کی رویت دوسری جگہ کے لیے موجب ہے (2) اگر بقدر نصاب جامع شرائط شہادت افراد اس بات کی گواہی دیں کہ ہم نے اپنی آنکھ سے چاند دیکھا ہے یا اس بات کی شہادت دیں کہ فلاں جگہ کے قاضی نے 29 کو رویت ہلال کا حکم دیا ہے بشرطے کہ یہ گواہ مجلس قضا میں حکم کے وقت موجود رہے یا بطریق استفاضہ وہاں خبر پہنچی ہو۔ البتہ یہ معتبر نہیں کہ دو آدمی یہ خبر دیں کہ فلاں شہر والوں نے چاند دیکھا ہے اس لیے کہ یہ صرف حکایت ہے شہادت نہیں۔
استفاضہ
کے معنی یہ ہیں کہ کسی شہر سے متعدد جماعتیں یکے بعد دیگرے آکر یہ خبر دیں کہ اس شہر کے لوگوں نے چاند دیکھا ہے، عوام کو شورش سے بچانے کے لیے وہاں کے ذمہ دار افراد پر لازم ہے کہ دوسرے بلاد کی رویت بطریق شرعی تحقیق کرکے مہینوں کی رویت کا حساب ٹھیک کر لیا کریں۔
واللہ تعالیٰ أعلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ:
شارح البخاري، المفتي شريف الحق الأمجدي رحمه الله تعالى
[فتاوی جامعہ اشرفیہ، کتاب الصوم، ج: 7، ص: 368، 269، مجلس برکا، جامعہ اشرفیہ مبارک پور]
1... چاند نظر نہیں آتا۔
2... یعنی ایک جگہ چاند نظر آنے سے دوسری جگہ بھی چاند کا ثبوت ہو جاتا ہے۔