Fatwa No. #250
سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں:
زید نے بعد نماز جمعہ کثیر مجمع میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جو نماز نہیں پڑھتا وہ بے ایمان ہے۔
زید سے ایک عالم دین نے چند سوالات کیے:
کیا جو لوگ اب تک نماز نہیں پڑھتے تھے وہ بے ایمان تھے؟ کیا ہمارے وہ آباء واجداد جو کہ نماز نہیں پڑھتے تھے بے ایمان مرے؟
ان سوالات پر زید یہ کہتا کہ آپ ان کو مسلمان سمجھتے ہیں؟ جواب دیا گیا کہ ہاں وہ خدا و رسول کے حکم سے مسلمان ہیں۔ زید نے کہا: آپ مسلمان سمجھتے ہیں تو سمجھا کریں۔
اس کے بعد مجمع میں انتشار پیدا ہوگیا جھگڑے کی نوبت آگئی۔ اس دوران امام مسجد اور دیگر چند اشخاص نے کہا کہ زید نے جو کچھ کہا ہے وہ کتاب میں لکھا ہے، ہم ثابت کر دیں گے۔
لہٰذا زید اور اس کی تائید کرنے والے تمام اشخاص کے لیے فیصلہ شرعی مع حوالۂ کتب معتبرہ ارشاد فرمائیں اور پیش امام مذکور کے پیچھے نماز پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ اگر پیش امام مذکورہ کے پیچھے نماز ادا کی گئی تو کیا جرم ہے؟ قرآن و حدیث کے حوالے سے ارشاد فرمائیں۔
بینوا توجروا
المستفتین:
عبد الشکور، محمد صادق وساکنان سمک سیر، مالیگاوں
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب:
ارکانِ اسلام میں نماز رکن اعظم ہے۔ قرآن مجید اور حدیث شریف میں نماز کی بڑی سخت تاکید ہے۔ نماز کے ترک پر بڑی بڑی شدید وعیدیں آئی ہیں۔ بعض جگہ تارک نماز پر کفر کا اطلاق بھی کیا گیا ہے، مثلاً:
من ترك الصلوة فقد كفر. [المنذري، الترغيب والترهيب، ج: ١، ص: ٣٨٦]
جس نے نماز ترک کی وہ کافر ہوا۔ (مرتب مصباحی)
یہ اطلاق زجرًا اور تشدیدًا کیا گیا ہے، یا یہ مطلب ہے کہ جس نے نماز کو فرض نہ جان کر ترک کیا وہ کافر ہے۔ اس طرح بعض دوسرے گناہوں کے لیے بھی تشدید آئی ہے مثلاً حدیث میں ارشاد فرمایا:
لا يزني الزاني حين يزني و هو مومن ولا يسرق السارق حين يسرق و هو مومن. [التبريزي، مشكاة المصابيح، ص: ٥٩، دار الفكر، بيروت]
زانى جس وقت زنا کرتا ہے مومن نہیں رہتا اور چور جس وقت چوری کرتا ہے مومن نہیں رہتا۔
ان حدیثوں میں زانی اور چور سے ایمان کی نفی تشدیداً کی گئی ہے۔ یا کمال ایمان کی نفی ہے، یا یہ مطلب ہے کہ زنا اور چوری کو حلال جان کر کیا تو مومن نہیں۔ شراح حدیث ان احادیث کا یہی مطلب بیان فرماتے ہیں ، اس لیے کہ ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے۔
شرح عقائد میں ہے:
فاعلم أن الايمان في الشرع هو التصديق بما جاء به من عند الله تعالى. [التفتازاني، شرح العقائد، ص: ١٢٦، مجلس البركات، مباركفور]
یعنی بے شک شریعت میں ایمان تصدیق ہے ہر اس چیز کی جو نبی اللہ کی جانب سے لے کر آئے۔
لہٰذا جو مسلمان نماز کو فرض جانتا ہے اور محض غفلت دستی سے ترک کرتا ہے وہ مومن ہے، کافر نہیں۔ زنا، چوری ، ترک نماز گناہ کبیرہ ہیں اور اہلِ سنت و جماعت کا اجماع و اتفاق ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ایمان اور اسلام سے خارج نہیں۔
عقائد نسفی میں ہے:
الكبيرة لا تخرج العبد المومن من الإيمان. [نجم الدین النسفي، العقائد مع شرح العقائد، ص: ١١٦، ١١٧، مجلس البركات، مباركفور]
یعنی گناہ کبیرہ بندہ مومن کو ایمان سے خارج نہیں کرتا۔
البتہ معتزلہ اور خارجیوں کا اس میں اختلاف ہے۔ معتزلہ مرتکب کبیرہ کو ایمان سے خارج مانتے ہیں اور خارجی کافر جانتے ہیں۔
چنان چہ شرح عقائد میں ہے:
خلافاً للمعتزلة حيث زعموا أن مرتكب الكبيرة ليس بمومن ولا كافر. خلافاً للخوارج فانهم ذهبوا الى ان مرتکب الكبيرة بل الصغيرة أيضًا كافر۔ [التفتازاني، شرح العقائد، ص: ١١٧، مجلس البركات، مباركفور]
معتزلہ کا اس میں خلاف ہے، انھوں نے کہا مرتکب کبیرہ نہ مومن ہے نہ کافر۔ اور خارجیوں کا خلاف ہے، وہ اس طرف گئے کہ مرتکب کبیرہ بلکہ صغیرہ بھی کافر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر چہ سخت گناہ گار ہے لیکن مؤمن ہے، اس کو بے ایمان جاننا معتزلہ اور خار جیوں کا مذہب ہے۔ زید کے اس قول پر کہ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے وہ بے ایمان ہیں، عالم صاحب کے سوالات مذکورہ فی السوال غالباً اس تحقیق کے لیے تھے کہ زید تارک نماز سے ایمان کی نفی کا کیا معنی لیتا ہے۔ اگر تشدیداً اطلاق کرتا ہے یا کمال ایمان کی نفی کرتا ہے، تو زید کا قول بن سکتا ہے مگر زید کا جواب دلیل ہے کہ زید تارک نماز کو مومن نہیں جانتا اور یہ عقیدہ ہر مذہب، بد دین معتزلہ اور خارجیوں کا ہے۔
لہٰذا زید اور اس کے مؤیدین کو اس عقیدے سے توبہ کرنا چاہیے۔ امام مسجد نے زید کے اس غلط باطل قول کی تائید کی ہے۔ لہٰذا امام مسجد کو بھی توبہ کرنا چاہیے، زید کی تائید میں یہ کہنا کہ زید جو کہتا ہے وہ کتاب میں لکھا ہے۔ کتاب میں اگر کہیں اطلاق ہے بھی تو وہی مطلب ہے جو او پر احادیث کے تحت بیان ہوا۔ ان مؤیدین کی لاعلمی ہے کہ جانتے نہیں۔
والله تعالى أعلم بالصواب.
کتبــــــه:
جلالة العلم حافظ الملة والدين العلامة عبد العزیز المحدث المرادآبادي ثم المبارکفوری علیه الرحمة والرضوان
[فتاویٰ جامعہ اشرفیہ، ج: 1، ص: 238 تا 240، مجلس برکات جامعہ اشرفیہ، مبارک پور]