رمضان کے چاند کے ثبوت کا شرعی طریقہ کیا ہے؟

Fatwa No. #258

زید کی بستی کے لوگوں نے 29 شعبان کو چاند نظر نہ آنے پر 30 شعبان پورے کر کے روزہ کھنا شروع کیا۔ زید اپنی بستی سے چالیس میل دور کسی دوسری بستی میں 29 شعبان کو تھا۔ زید جب چار رمضان کو بستی لوٹا تو کہا کہ میں نے 29 شعبان کو چاند دیکھا ہے۔ کیا زید کے چار رمضان کے بعد گواہی پر بستی والے ایک روزے کی قضا کریں؟
المستفتی: مدرسہ فخریہ، غوث اعظم نبی پور، بھوج پور

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

رمضان شریف کے چاند کے ثبوت کے لیے ایک ایسے مسلمان کی خبر کافی ہے جو فاسق نہ ہو، اب اگر زید فاسق نہیں اور مسلمان ہے تو اس کی خبر پر کہ میں نے فلاں جگہ اپنی آنکھ سے چاند دیکھا ہے۔ 29 شعبان کا چاند مان لینا ضروری ہے اور جن لوگوں نے چاند نہ ہونے کی وجہ سے 30 شعبان کو روزہ نہیں رکھا ان پر ایک روزے کی قضا واجب۔

تنویر الابصار اور در مختار میں ہے:

وقبل بلا دعوى و بلا لفظ (أشهد) وبلا حكم ومجلس قضاء؛ لأنه خبر لا (شهادة للصوم مع علة كغيم) وغبار خبر (عدل) أو مستور. [الدر المختار مع رد المحتار، ص: ٣٥٢، ج: ٣، کتاب الصوم، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان]

بشرطے کہ یہاں مطلع ابر آلود یا گرد آلود ہو، اور اگر مطلع صاف رہا ہو تو ایک آدمی کی خبر ہی نہیں، دو آدمی کی شہادت بھی ناکافی ہے۔

اسی میں ہے:

(و) قبل (بلا علة جمع عظيم يقع العلم) الشرعي وهو غلبة الظن بخبرهم. [الدر المختار مع رد المحتار، ص: ٣٥٥، ج: ٣، کتاب الصوم، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان]

اسی طرح عید الفطر اور دیگر مہینوں کے چاند کے لیے جب مطلع صاف ہو تو دو آدمیوں کی بلکہ چند آدمیوں کی بھی گواہی معتبر نہیں۔ رمضان کے علاوہ بقیہ مہینوں کے چاند کے ثبوت کے لیے ایک آدمی کی خبر بلکہ شہادت ہی ناکافی ہے، جب مطلع ناصاف ہو تو رمضان کو چھوڑ کر بقیہ مہینوں کے لیے اگر چہ وہ عیدین کے مہینے ہوں کم از کم دو مرد، یا ایک مرد اور دو عورتوں کی جو سب کے سب عادل اور ثقہ ہوں شہادت شرعیہ شرط ہے۔

انھیں دونوں کتابوں میں ہے:

(والشرط للفطر) مع العلة والعدالة (نصاب الشهادة ولفظ أشهد) وعدم الحد في قذف. [الدر المختار مع رد المحتار، ص: ٣٥٣، ج: ٣، کتاب الصوم، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان]

اس وجہ سے زید اگر عادل، ثقہ اور متدین ہو تو اس کی یہ خبر کہ میں نے فلاں جگہ عید کا چاند 29 رمضان کو دیکھا ہے غیر معتبر ہے بلکہ شہادت بھی دے تو معتبر نہیں۔ اس لیے تنہا زید کی خبر یا شہادت پر یہ جائز نہیں کہ 30 رمضان کو روزہ چھوڑیں اور عید کریں۔ واللہ تعالیٰ أعلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ:
شارح البخاري، المفتي شريف الحق الأمجدي رحمه الله تعالى

[فتاوی جامعہ اشرفیہ، کتاب الصوم، ج: 7، ص: 293، 294، مجلس برکات، جامعہ اشرفیہ مبارک پور]

ایک تبصرہ شائع کریں