حاملہ عورت کے لیے روزہ چھوڑنا کیسا ہے؟

Question S. No. #260

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیافرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہندہ کو ایک ماہ کاحمل ہے، روزہ رکھنے کی وجہ سے ہندہ کو یا اس کے حمل کو کسی قسم کا نقصان یا ضرر وغیرہ کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ بعض لوگ ہندہ کو حمل کی وجہ سے روزہ رکھنے سے روک رہے ہیں کہ تم حاملہ ہو لہٰذا روزہ نہ رکھو۔ ہندہ کو روزہ رکھنا چاہیے کہ نہیں؟

المستفتی: نامعلوم

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

صورت مسئولہ میں ہندہ پر روزہ رکھنا فرض ہے، کیوں کہ حاملہ عورت کو روزہ چھوڑنے کی اسی وقت اجازت ہے جب اسے اپنی جان پر یا بچے کی جان پر ضرر کا صحیح اندیشہ ہو، اور اس صورت میں بھی بعد میں روزہ کی قضا کرنا لازم ہے۔ اور جب ہندہ کو یا اس کے حمل کو کسی قسم کی ضرر کا اندیشہ نہیں ہے تو ہندہ پر روزہ رکھنا فرض اور چھوڑنا ناجائز وگناہ ہے۔

روزہ کی فرضیت کے متعلق قرآن مجید میں ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ [البقرۃ: 183]

ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔

بغیر عذر روزہ چھوڑنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

من أفطر يوما من رمضان من غير عذر ولا مرض، لم يقضه صيام الدهر وإن صامہ. [صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب إذا جامع في رمضان، ج: 3، ص: 32، دار طوق النجاۃ]

ترجمہ: جس نے رمضان کا ایک روزہ بنا کسی عذر یامرض کے چھوڑا تو زمانہ بھر کے روزہ اس کی قضا نہیں ہو سکتے اگر چہ بعد میں رکھ بھی لے۔

اگر حاملہ کو ضرر کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے۔ چنانچہ ارشاد رب العباد ہے:

﴿فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾ [البقرۃ: 184]

ترجمہ کنز الایمان: تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں

ملک العلما علامہ ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی علیہ الرحمہ (سال وفات: 587ھ) مذکورہ آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

أما حبل المرأة وإرضاعها: إذا خافتا الضرر بولدهما فمرخص لقوله تعالى ﴿فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾ ليس المراد عين المرض، فإن المريض الذي لا يضره الصوم ليس له أن يفطر فكان ذكر المرض كناية عن أمر يضر الصوم معه. بدائع الصنائع، کتاب الصوم، فصل حکم فساد الصوم، ج: 2، ص: 97، دار الکتب العلمیۃ]

ترجمہ: رہا عورت کا حاملہ ہونا یا دودھ پلانا تو اگر حاملہ یا دودھ پلانے والی کو بچے پر ضرر کا خوف ہو تو ان کو روزہ میں رخصت ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے سبب: ”تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں“ اور آیت میں مراد خاص طور پر مرض نہیں ہے کیوں کہ وہ مریض جسے روزہ نقصان نہ دے اس کے لیے روزہ نہ رکھنا جائز نہیں تو یہاں مرض کا ذکر کنایہ ہےہر اس معاملہ سے جس کے ساتھ روزہ میں تکلیف ہو۔

اسی طرح حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

إن الله تعالى وضع عن المسافر الصوم، وشطر الصلاة، وعن الحامل أو المرضع الصوم أو الصيام. [جامع الترمذي، أبواب الصوم، باب ما جاء في الرخصة في الإفطار للحبلى والمرضع، ج: 2، ص: 86، دار الغرب الإسلامي]

ترجمہ: بے شک اللہ پاک نے مسافر سے روزہ کو اور نماز کے نصف حصہ کو اور حاملہ یا دودھ پلانے والی سے روزہ کو معاف کر دیا ہے۔

اس حدیث کی شرح میں علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ (متوفى: 855ھ) لکھتے ہیں:

وضع الصوم أيضا عن الحامل والمرضع إذا خافتا على ولدهما. [نخب الأفکار، ج: 8، ص: 356، وزارۃ الأوقاف والشؤون الإسلامية، قطر]

ترجمہ: حاملہ اور دودھ پلانے والی سے بھی روزہ کو معاف کر دیا گیا ہے جب کہ انہیں بچے پر خوف ہو۔

شمس الائمہ امام محمد بن احمد سرخسی علیہ الرحمہ (سال وفات: 483ھ) فرماتے ہیں:

إذا خافت الحامل، أو المرضع على نفسها اغو ولدها أفطرت [المبسوط للسرخسي، کتاب الصوم، ج: 3، ص: 99، دار المعرفۃ، بیروت]

ترجمہ: جب حاملہ یا دودھ پلانے والی کو خود پر یا اپنے بچے پر خوف ہے تو روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے۔

اور روزہ چھوڑنے کی حالت میں بعد میں قضا کرنا لازم ہے جیساکہ محرر مذہب امام محمد بن حسن شیبانی علیہ الرحمہ (متوفى: 189ھ) تحریر کرتے ہیں:

قلت: أرأيت المرأة الحامل والمرضع التي تخاف على الصبي أو الحامل تخاف على نفسها؟ قال: يفطران ويقضيان يوما مكان كل يوم ولا كفارة عليهما. [الأصل للشيباني، کتاب الصوم، ج: 2، ص: 245، إدارۃ القرآن، کراچی]

ترجمہ: میں نے کہا: حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی جس کو بچے پر خوف ہو یا حاملہ کو خود کی جان کا خوف ہو اس کے بارے میں آپ کی کیا راۓ ہے؟ فرمایا: یہ دونوں روزہ نہ رکھیں اور ہر دن کے روزہ کے بدلے ایک دن قضا رکھیں اور ان پر کوئی کفارہ نہیں۔

تنبیہ: جن لوگوں نے ہندہ کو غلط مسئلہ بتایا وہ گنہگار اور عذاب نار کے حق دار ہوئے، بغیر علم کے مسئلہ بتانا سخت حرام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

أجرؤكم على الفتيا أجرؤكم على النار. [سنن الدارمي، ج: 1، ص: 158، دار المغني]

ترجمہ: تم میں فتوی دینے پر جرأت کرنے والا جہنم پر جرأت کرنے والا ہے۔

لہٰذا ان لوگوں پر لازم ہے کہ توبہ کریں اور ہندہ کے سامنے اس غلط مسئلہ سے رجوع بھی کریں۔ واللہ أعلم عزوجل ورسولہ أعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ:
ابو عاقل محمد حسین رضا اشرفی

الجواب صحیح: مفتی آصف صاحب قبلہ (مفتی دعوت اسلامی)

ایک تبصرہ شائع کریں