کرایے پر دیے ہوئے مکان یا دکان پر زکات ہے یا نہیں؟

Fatwa No. #266

ایک شخص تجارت کرتا ہے ، رہنے کے لیے مکان ہے، اور دکان کرنے کے لیے بھی تین کمرے ہیں، ایک کمرہ میں تجارت کرتا ہے دو کو بھاڑے (کرایے) پر دے دیا ہے۔ تو کیا ان دونوں کمروں کی مالیت لگاکر اس مالیت پر زکات نکالے، یا جو ان دونوں کمروں سے کرایہ ملتا ہے صرف اس رقم کی زکات نکالے؟

المستفتی: محمد سلیمان قادری، نیشنل میڈیکل ہال، رتسڑ، بلیا، یوپی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

کرایے کے مکانوں پر زکات نہیں یعنی اگر مکان یا دکان کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے تو اس مکان، یا دکان کی وجہ سے زکات واجب نہ ہوگی، زکات صرف مال نامی پر ہے اور مال نامی تین ہیں: سوائم (1) ، نقدین (سونا، چاندی) مال تجارت۔ (در مختار ورد المحتار)

ہاں اگر کرایہ کی رقم اتنی جمع ہو جائے جو بقدر نصاب ہو یا دوسرے روپے کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر بھی زکات واجب ہوگی۔ واللہ تعالیٰ أعلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ:
شارح البخاري، المفتي شريف الحق الأمجدي رحمه الله تعالى

[فتاوی جامعہ اشرفیہ، ج: 7، ص: 38، مجلس برکات، مبارک پور]

1... سائمہ وہ جانورہے جو سال کے اکثر حصہ میں چر کر گزر کرتا ہو اور اوس سے مقصود صرف دودھ اور بچے لینا یا فربہ کرنا ہے۔ اگر گھر میں گھاس لا کر کھلاتے ہوں یا مقصود بوجھ لادنا یا ہل وغیرہ کسی کام میں لانا یا سواری لینا ہے تو اگرچہ چر کر گذر کرتا ہو، وہ سائمہ نہیں اور اس کی زکاۃ واجب نہیں۔ یوہیں اگر گوشت کھانے کے لیے ہے تو سائمہ نہیں، اگرچہ جنگل میں چرتا ہو اور اگر تجارت کا جانور چرائی پر ہے تو یہ بھی سائمہ نہیں ، بلکہ اس کی زکاۃ قیمت لگا کر ادا کی جائے گی۔ (بہار شریعت)

ایک تبصرہ شائع کریں