مسافر اور مریض کو روزہ رکھنے کا موقع نہ ملے تو ان کے روزے کا کیا حکم ہے؟

Fatwa No. #264

زید مدرسہ کا ایک اہم رکن ہے۔ اس نے رمضان شریف کے موقع سے مدرسہ کی جانب سے ایک اشتہار شائع کیا، اس اشتہار میں اس مسئلہ کو تحریر کیا جس سے عوام الناس میں کافی کھلبلی اور کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ اور ہزاروں نے مذکورہ مسئلہ پر عمل کیا۔

نقل اشتہار:

اپنی بیوی سے رات میں صحبت کیا اور سارا دن غسل نہیں کیا تو روزہ نہیں جائے گا۔ البتہ ترک نماز کا گنہ گار ہوگا۔ اس مسئلہ کا اظہار کیسا ہے؟

مسافر سفر کے سبب، مریض مرض کے سبب روزہ نہ رکھ سکا اور اسی حالت میں ختم ہوگیا تو دونوں پر نہ روزہ کا کفارہ ہے اور نہ قضا۔

اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ زید نے جو مسئلہ نمبر ۲ تحریر کیا ہے یہ قرآن عظیم کے موافق ہے یا خلاف؟ چوں کہ قرآن عظیم میں ہے:

{فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ} بینوا توجروا

المستفتی: محمد ابراہیم، مزدور ٹیلرس، ملنگو انیپال، پوسٹ سون برسا، سیتا مڑھی، بہار

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

اس مسئلہ کو اشتہار میں لکھ کر چھاپنا بہت ہی غیر مناسب بات ہے۔ روزے کی حالت میں جنابت کے ساتھ رہنا روزے کو بے نور کر دیتا ہے، اس سے روزے میں سخت کراہت پیدا ہو جاتی ہے۔ واللہ تعالی اعلم

دوسرا مسئلہ اپنی جگہ پر درست ہے اور سائل کا قرآن مجید سے مسئلہ کے غلط ہونے پر استدلال کرنا بہت بڑی اور غلط جرأت ہے۔ اگر وہ کسی مترجم قرآن میں اس کا ترجمہ دیکھ لیتا تو ایسی بے جا بات نہ کرتا۔ اس آیت کا صاف اور صریح مطلب یہ ہے کہ جو مریض بوجہ مرض اور جو مسافر بوجہ سفر رمضان کے دنوں میں روزہ نہ رکھ سکا وہ دوسرے دنوں میں روزے کی قضا کرے۔ دوسرے دنوں میں قضا اسی وقت رکھ سکے گا جب اس کو دوسرے دن ملے ہوں اور جب وہ دوسرے دن پانے سے پہلے ہی مر گیا تو قضا کیسے رکھے؟ واللہ تعالیٰ أعلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ:
شارح البخاري، المفتي شريف الحق الأمجدي رحمه الله تعالى

[فتاوی جامعہ اشرفیہ، ج: 7، ص: 387، 388 مجلس برکات، مبارک پور]

ایک تبصرہ شائع کریں