Fatwa No. #269
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ:
اگر کوئی شخص عشا کی نماز بلاجماعت کے پڑھے، تو کیا وتر جماعت کے ساتھ پڑھ سکتا ہے؟
پھر اگر پڑھ لی تو کیا حکم ہے؟
بينوا توجروا
المستفتی:
محمد اشفاق عطاری
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب:
آپ کے سوال کے دو اجزا ہیں، دونوں کے جواب ان شاء اللہ عرض کرتا ہوں:
پہلا سوال:
اگر کوئی شخص عشا کی نماز بغیر جماعت کے پڑھے تو کیا وتر جماعت کے ساتھ پڑھ سکتا ہے؟
جواب: ایسا شخص جس نے عشا کی نماز جماعت سے نہیں پڑھی ہے، اسے وتر جماعت کے ساتھ پڑھنے کی اجازت نہیں۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے:
من صلی الفرض منفردا لا یدخل في جماعة الوتر. [فتاویٰ رضویہ ج: 7، ص: 556]
ایسے شخص کو حکم یہ ہے کہ وتر جماعت کے ساتھ نہ پڑھے۔
یہ ایک ایسا متفقہ مسئلہ ہے کہ جس میں کوئی دو رائے نہیں۔ جیسا کہ حضور مفتی اعظم فرماتے ہیں:
دوسرا مسئلہ کہ جس نے فرضوں کی جماعت کھوئی ہے، وہ وتر جماعت سے نہ پڑھے، خلاف سے ہی پاک تھا، اسی لیے اس کے خلاف کوئی سادہ قول بھی نقل نہ فرمایا، اگر اس کے خلاف کوئی قول ہوتا تو ضرور نقل فرماتے۔ [فتاویٰ مفتی اعظم ج: 3، ص: 82]
ہاں اس بات میں اختلاف ضرور ہے، کہ جس نے جماعت کے ساتھ عشا پڑھی، اس کے لیے بھی وتر مسجد میں جماعت کے ساتھ افضل ہے، یا گھر پر تنہا۔
اس باب میں اصل مذہب تو گھر میں تنہا پڑھنا ہی افضل ہے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
ہمارے اصل مذہب میں افضل یہی ہے کہ تنہا گھر میں پڑھے۔ [فتاویٰ رضویہ ج: 7، ص: 400]
البتہ زیادہ راجح یہی ہے کہ رمضان میں عشا کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے والا وتر بھی جماعت کے ساتھ پڑھے۔
جس نے فرض کسی جماعت میں پڑھے ہوں، اس کے باب میں بھی علماء مختلف ہیں کہ وتر جماعت سے ادا کرنا اولیٰ ہے یا تنہا پڑھنا: دونوں طرف ترجیحیں ہیں، اور زیادہ رجحان اس طرف ہے کہ جماعت افضل ہے۔ [فتاویٰ رضویہ ج: 7، ص: 468]
لہذا ایسے شخص کو وتر جماعت کے ساتھ پڑھنے کی اجازت نہیں۔
دوسرا سوال:
آپ کے سوال کا دوسرا جزء تھا:
اگر پڑھ لیا تو کیا حکم ہے؟
جواب: پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے، جس کا مرتکب گناہ گار نہیں، اس کی نماز ہو گئی، دوہرانے کی حاجت نہیں۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
ایک تحریر دیکھنے کو ملی جس میں عبارت: «ليس له أن يدخل في جماعة الوتر» میں سے ایک فقہی تعبیر «لیس لہ» کو بنیاد بنا کر مکروہ تحریمی کا قول کیا گیا تھا۔
اسی طرح فتاویٰ رضویہ کی دو اور عبارتیں:
- ربما یوھم قولہ ولا للعشاء، جواز بجماعۃ الوتر وإن ترکوا جماعۃ الفرض أصلا لکنہ کما علمت خلاف المنقول. [فتاویٰ رضویہ، ج: 7، ص: 551]
- فقد یوھم قولہ «ولا للعشاء» جواز الوتر بجماعۃ ولو لم یصل ھو بل الکل الفرض بھا لکنہ کما علمت خلاف المنصوص [فتاویٰ رضویہ، ج: 7، ص: 560]
اس سے یہ سمجھ لیا گیا کہ جب جواز خلافِ منقول و خلافِ منصوص ہے تو اس کا مقابل ناجائز و مکروہ تحریمی ہی ہوگا، جب کہ ایسا نہیں
اس حوالے سے چند باتیں ذکر کی جاتی ہیں:
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ وتر کی جماعت کا وہی حکم ہے جو نفل کی جماعت کا ہے کیونکہ وتر یہ بھی من وجہ نفل ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
إن الوتر نفل من وجہ والنفل بالجماعۃ غیر مستحب لأنه لم تفعلہ الصحابۃ في غیر رمضان اهـ. وھو کالصریح في أنها کراھۃ تنزیہ. [فتاویٰ رضویہ ج: 7، ص: 432]
اب یہ مکروہ کیوں ہے تو اس کی وجہ بھی ان الفاظ سے بیان کیا:
لأنہ لم تفعلہ الصحابۃ في غیر رمضان.
یعنی یہ مخالفِ توارث ہے، لہٰذا جب کبھی خلاف توارث ہوگا، تو مکروہ ہوگا اور جب موافق توارث ہوگا، تو کراہت نہ رہے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ خلاف توارث کب ہے اور موافق توارث کب؟
علماے کرام کے اس تعلق سے تین طرح کے اقوال ہیں:
- بعض نے کہا کہ جماعت وتر یہ جماعت عشا کے تابع ہے لہذا اگر عشا بجماعت نہ ہو تو وتر جماعت کے ساتھ مکروہ۔
- دوسرے گروہ نے فرمایا کہ جماعت وتر جماعت تراویح کے تابع ہے، لہذا تراویح اگر جماعت کے ساتھ نہ ہو، تو وتر کی جماعت مکروہ۔
- اور ایک جماعت نے یہ کہا کہ جماعت وتر رمضان کے تابع ہے، لہذا غیر رمضان میں اس کی جماعت مکروہ۔
تینوں اقوال بظاہر ایک دوسرے کے متضاد معلوم ہوتے ہیں، لیکن اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے ان تینوں اقوال کی ایسی نفیس وضاحت فرمائی کہ تضاد سرے سے ختم ہی ہو گیا۔
آپ نے بڑے ہی اچھوتے انداز میں ایک جامع و مختصر جملے میں ایک تفصیلی بحث کو سمیٹ کر رکھ دیا، آپ فرماتے ہیں:
فقد تحرر بما تقرر، أن جماعة الوتر تبع لجماعة الفرض في حق كل أحد من المصلین، ولجماعة التراویح في الجملة لا في حق کل، ولرمضان بمعنی أنھا تکرہ في غیرہ لو علی سبیل التداعی بأن یقتدی أربعة بواحد. [فتاویٰ رضویہ ج: 7، ص: 567]
اس میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے تینوں باتیں بیان فرمائی ہے۔
پہلی بات:
إن جماعة الوتر تبع لجماعة الفرض في حق كل أحد من المصلین.
یعنی: وتر کی جماعت فرضِ عشاء کی جماعت کے تابع ہے ہر ایک نمازی کے حق میں۔ لہٰذا جس کسی نے بھی عشا کی فرض جماعت کے بغیر پڑھی ہے تو اس کے لیے وتر جماعت کے ساتھ پڑھنا مکروہ۔
دوسری بات:
ولجماعة التراویح في الجملة لا في حق کل.
اس میں یہ ارشاد فرمایا کہ تراویح کی جماعت سرے سے ہوئی ہی نہیں تو بھی وتر جماعت کے ساتھ پڑھنا مکروہ۔
دونوں میں فرق یہ ہوا، کہ وتر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا بلا کراہت اس وقت ہے، جب کہ خاص یہ شخص جماعت عشا میں شامل ہوا ہو، جبکہ تراویح کے حق میں یہ ہے کہ تراویح جماعت کے ساتھ پڑھ لی گئی ہو، خواہ خاص یہ شخص شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔
تیسری بات:
ولرمضان بمعنی أنھا تکرہ في غیرہ لو علی سبیل التداعی بأن یقتدی أربعة بواحد.
مطلب یہ کہ غیر رمضان میں بھی جماعت وتر مکروہ ہے، جب کہ تداعی کے ساتھ ہو، یعنی ایک امام کے پیچھے چار یا اس سے زائد مقتدی ہوں۔
اس تفصیل سے یہ واضح ہو گیا کہ جو حکم رمضان المبارک میں جماعت کے بغیر عشا پڑھ کر وتر کی جماعت میں شرکت کرنے والے کا ہے، وہی حکم اس شخص کا بھی ہے جو غیر رمضان میں وتر کی جماعت تداعی کے ساتھ کرے۔
پھر جب یہ ظاہر ہوگیا کہ یہاں کراہت خلافِ توارث کی وجہ سے ہے، تو اب یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس سے جو کراہت آتی ہے، وہ مکروہ تنزیہی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
پھر اظہر یہ کہ یہ کراہت صرف تنزیہی ہے یعنی خلاف اولی لمخالفۃ التوارث نہ تحریمی کہ گناہ وممنوع ہو۔ [فتاویٰ رضویہ ج: 7، ص: 43]
خاص وتر کی جماعت غیر رمضان سے متعلق آپ نے فرمایا کہ مکروہ تنزیہی ہے:
إن الوتر نفل من وجہ والنفل بالجماعۃ غیر مستحب؛ لأنه لم تفعله الصحابة في غیر رمضان. اهـ. وھو کالصریح في أنھا کراھة تنزیه. تأمل. [فتاویٰ رضویہ ج: 7، ص: 432]
یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ وتر کی جماعت جن صورتوں میں مکروہ تنزیہی ہے وہ بھی اسی وقت ہے جب کہ بطور التزام ہو اور اگر اتفاقاً کبھی کر لیا تو کراہت تنزیہی بھی نہیں۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:
اور وتروں کی جماعت غیر رمضان میں اگر اتفاقًا کبھی ہوجائے تو حرج نہیں مگر التزام کے ساتھ وہی حکم ہے کہ چار، یا زیادہ مقتدی ہوں تو کراہت ہے۔ رد المحتار میں ہے:
قوله: «یکرہ ذلك» أشار إلی ماقالوا أن المراد من قول القدوري في مختصرہ: «لا یجوز» الکراھۃ لا عدم أصل الجواز، لکن في الخلاصة عن القدوري أنه لا یکرہ. وأیدہ في الحلیۃ بما أخرجه الطحاوي عن المسور بن مخرمۃ قال دفنا أبا بکر رضی الله تعالى عنہ لیلا فقال عمر رضی الله تعالی عنہ: أني لم أوتر فقام وصفنا ورائه فصلی بنا ثلاث رکعات لم یسلم إلا في آخرھن ثم قال: و یمکن أن یقال: الظاھر أن الجماعۃ فیہ غیر مستحبۃ، ثم إن کان ذلك أحیانا کما فعل عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کان مباحا غیر مکروہ، وإن کان علی سبیل المواظبۃ کان بدعۃ مکروھۃ؛ لأنه خلاف المتوارث. وعلیہ یحمل ما ذکرہ القدوري في مختصرہ وما ذکرہ في غیر مختصرہ یحمل علی الأول. وﷲ تعالٰی اعلم. ملخصاً. [فتاویٰ رضویہ ج: 7، ص: 427]
ان عبارتوں سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ جہاں جہاں «ليس له أن يدخل في جماعة الوتر» یا اس جیسی عبارت اس مسئلے میں مذکور ہے اس سے مراد جوازِ مطلق کی نفی مقصود ہے نہ کہ مطلقِ جواز کی نفی اور یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ ابھی اوپر جو عبارت گزری اسی میں صاحب قدوری کی عبارت «لايجوز» کو اسی جواز مطلق کی نفی پر محمول کیا اور فرمایا:
المراد من قول القدوري في مختصرہ «لایجوز» الکراھۃ لا عدم أصل الجواز.
اسی طرح یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ جواز کے قول کو خلاف منصوص قرار دینا بھی اسی قبیل سے ہے۔ یعنی جوازِ مطق کا قول کرنا خلاف منصوص ہے کیونکہ یہ جوازِ مطلق نہیں بلکہ جوازِ مقید بقیدِ کراہت تنزیہی ہے۔
یہ بھی کوئی نئی بات نہیں کہ جواز مطلق کو جواز مقید کے مقابل کہا جاتا ہے جیسا کہ اسی نفل کی جماعت سے متعلق اعلیٰ حضرت نے فرمایا:
بالجملہ دو مقتدیوں میں بالاجماع جائز اور پانچ میں بالاتفاق مکروہ، اور تین اور چارمیں اختلاف نقل ومشائخ، اور أصح یہ کہ تین میں کراہت نہیں چار میں ہے، تومذہب مختار یہ نکلا کہ امام کے سوا چار یا زائد ہوں تو کراہت ہے ورنہ نہیں، ولہٰذا درر و غرر پھر در مختار میں فرمایا:
یکرہ ذلك لو علی سبیل التداعي بأن یقتدی أربعة بواحد.
پھر اظہریہ کہ یہ کراہت صرف تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ لمخالفۃ التوارث نہ تحریمی کہ گناہ وممنوع ہو۔ [فتاویٰ رضویہ: 7، ص: 431]
یہاں آپ خود غور فرمائیں کہ جواز کو مکروہ کے مقابل بیان کیا، جب کہ یہاں جو مکروہ ہے وہ بھی جائز ہی ہے کیونکہ وہ مکروہ تنزیہی ہے۔ ہاں! بس فرق اتنا ہے کہ اول جائزِ مطلق ہے اور دوم جائز مقید۔
حاصل کلام:
ثابت ہوا کہ جسے عشا کی جماعت میسر نہ آئی اسے حکم یہی ہے کہ وہ وتر بھی تنہا پڑھے۔ لیکن اگر پڑھ لیا تو بھی نماز ہو جائے گی دوہرانے کی حاجت نہیں البتہ خلاف توارث کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہوگی۔
واللہ تعالیٰ أعلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ:
محمد وسيم أكرم الرضوي المصباحي
١٨، رمضان المبارک ١٤٤١ھ
12، مئی، 2020ء