سال پورا ہونے کے بعد زکاۃ ادا کرنے کے لیے رمضان آنے کا انتظار کرنا کیسا؟

Fatwa No. #265

ہر سال جنوری، یا فروری کے ماہ میں اپنے مال کا حساب کر لیا جائے اور اس کی زکات رمضان المبارک میں ادا کی جائے تو کیا کوئی حرج ہے؟

المستفتی: محمد یاسین اشرفی، محلہ پورہ صوفی، مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ، یوپی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

حساب کرنے کے وقت کا اعتبار نہیں، نصاب پر جب سال پورا ہو جائے فوراً زکات ادا کرنا واجب ہے، ادا کرنے میں دیر کرنا گناہ ہے، مثلاً: ایک شخص پہلی محرم کو مالک نصاب ہوا تو سال گزرنے پر پہلی ہی محرم کو اس پر واجب ہے کہ زکات ادا کرے، ذرا بھی دیر نہ کرے ورنہ گناہ گار ہوگا۔ یہ جو مال داروں نے نکال رکھا ہے کہ صرف رمضان ہی میں زکات دیتے ہیں دوسرے مہینوں میں نہیں دیتے خلاف شریعت ہے، (1) ان میں سے جن لوگوں کے نصاب پر رمضان سے پہلے سال تمام ہوا وہ لوگ اس وقت زکات نہ ادا کر کے رمضان کا انتظار کریں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہر شخص یاد رکھے کہ وہ کس وقت مالک نصاب ہوا تھا۔ سال پورا ہونے پر اسی وقت حساب کر کے زکات نکال دے، اور اگر کسی کو یہ یاد نہ ہو کہ وہ کس تاریخ ، کس مہینے میں مالک نصاب ہوا تھا تو وہ سوچے اور غور کرے، یاد کرنے کی کوشش کرے جس تاریخ پر دل جمے اسی کو معین کر لے۔ (2) واللہ تعالیٰ أعلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ:
شارح البخاري، المفتي شريف الحق الأمجدي رحمه الله تعالى

[فتاوی جامعہ اشرفیہ، ج: 7، ص: 36، 37 مجلس برکات، مبارک پور]

1... چوں کہ رمضان شریف میں نیکیوں کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے حتی کہ نوافل کا ثواب فرائض کے برابر ملتا ہے اور فرائض کا ثواب ستر گنا زیادہ ہوجاتا ہے، اب اگر کوئی شخص زکات کی ادائیگی میں بھی رمضان کی برکتیں حاصل کرنا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ زکات کا سال پورا ہونے قبل جو رمضان آئے اس میں زکات کی پیشگی ادائیگی کر دے اور سال مکمل ہونے کے دن دوبارہ حساب کرکے دیکھ لے اگر زکات کامل طور پر برابر ادا ہو چکی ہے تو ٹھیک ورنہ اگر زکات کی ادائیگی میں کچھ کمی رہ گئی ہو تو اب ادا کر دے اور اگر زیادہ ادا کر چکا ہے تو سال آئندہ کی زکات میں مجرا (کم) کرسکتا ہے واللہ تعالی اعلم۔ محمد شہباز انور برکاتی مصباحی

2... جنوری ، فروری کا اعتبار نہیں، اعتبار چاند کے مہینوں کا ہوگا۔ چاند کے مہینے کی جس تاریخ، گھنٹہ، منٹ پر مالک نصاب ہوا، سال پورا ہونے پر اسی مہینے کا وہی گھنٹہ، منٹ اس کے لیے زکات کا سال ہے۔ چاند کے مہینے کی اسی تاریخ، گھنٹہ، منٹ پر زکات ادا کرنا واجب ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

تجب علی الفور عند تمام الحول حتی یأثم بتأخیرہ من غیر عذر۔ [ج:۱،ص: ۱۸۸، کتاب الزکاۃ، الباب الأول في تفسیرھا وصفتھا وشرائطھا، درا الکتب العلمیۃ، بیروت]

اسی میں ہے:

العبرۃ في الزکاۃ للحول القمري، کذا فی القنیۃ، [ج:۱،ص: ۱۹۳، کتاب الزکاۃ، الباب الأول]

در مختار میں ہے:

وحولھا أي الزکاۃ قمري بحر عن القنیۃ، لا شمسي، وسیجيء الفرق في العنین۔

اس کے تحت رد المحتار میں ہے:

قولہ: وسیجيء الفرق في العنین : عبارتہ مع المتن: وأجل سنۃ قمریۃ بالأہلیۃ علی المذہب وھي ثلاث مائۃ وأربع وخمسون وبعض یوم، وقیل: شمسیۃ بالأیام وھي أزید بأحد عشر یومًا اھ۔ ثم إن ہذا إنما یظہر إذا کان الملک في ابتداء الأہلۃ، فلو ملکہ في أثناء الشھر، قیل: یعتبر بالأیام، وقیل یکمل الأول من الأخیر، ویعتبر ما بینہما بالأہلٖۃ ینظر ما قالوہ في العدۃ ط [رد المحتار المطبوع مع الدر المختار، ج:۳، ص:۲۲۳، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، قبیل زکاۃ المال، دار الکتب العلمیۃ] واللہ تعالی أعلم۔ (مفتی نظام الدین رضوی مصباحی) واللہ تعالی اعلم۔ جزوی ترمیم از کمال احمد مصباحی

ایک تبصرہ شائع کریں