Fatwa No. 270
زید نے ایک دکان کھولی، اس میں اس نے اس طرح سامان بنائے جو کرایے پر چلائے۔ مثلاً بجلی کی سجاوٹ کی بتیاں ہیں، قمقمے ہیں، راڈ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو کیا سالہا سال بکر پر مندرجہ بالا اشیا کی قیمت کی زکات واجب ہوگی یا نہیں؟ یا کسی نے ٹرک خریدا، وہ اس کو کرایے پر چلاتا ہے تو ٹرک کی قیمت پر ہر سال زکات واجب ہوگی یا اس کی آمدنی پر؟
المستفتی:
محمد ذکی برکاتی، دار العلوم برکاتیہ نوید الاسلام، قصبہ دگہر، شیر پور، بستی، یوپی
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب:
دونوں صورتوں میں کرایے سے جو آمدنی ہو اس پر زکات ہے اگر وہ بقدر نصاب سال بھر تک محفوظ رہے۔ بجلی وغیرہ کے سامان جو اس نے کرایہ پر دینے کے لیے خریدے ہیں اس سامان کی قیمت پر زکات نہیں اور نہ ٹرک پر ہے۔ ان کے کرایے سے جو آمدنی ہو اور وہ سال بھر بقدر نصاب محفوظ ہو اور دین سے فارغ ہو تو صرف اس پر زکات ہے۔
بجلی کے جو سامان کرایے پر دینے کے لیے خریدے گئے یا جو ٹرک کرایے پر چلانے کے لیے خریدا گیا ان کی حیثیت صنعت کاروں کے آلات کی ہے۔ جیسے بڑھئی کے اوزار، درزی کی مشین، یا کرایے کے مکان، یا کرایے پر اٹھانے والی دیگیں۔ ان سب میں زکات نہیں۔
الفتاوی الھندیہ میں ہے:
ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها و يؤاجرها لا تجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة.
[الفتاوى الهندية، ج: ١، ص: ١٩٨، كتاب الزكاة، باب زكاة الذهب والفضة، دار الكتب العلمية، بيروت]
واللہ تعالیٰ أعلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ:
شارح البخاري المفتي شريف الحق الأمجدي رحمه الله تعالى
٢٥، ذو القعدة ١٤١٣ هـ
[فتاوی جامعہ اشرفیہ، ج: 7، ص: 58، مجلس برکات، مبارک پور]